آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خون کی بیماری تھیلیسیمیا کے خلاف آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ پاکستان تھیلیسیمیا سینٹر کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5 ہزار بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جو تھیلیسمیا کا شکار ہوتے ہیں۔
خون کا مہلک مرض تھیلیسیمیا موروثی مرض ہے جو والدین سے بچوں کو ملتا ہے، یہ مرض خون کے خلیوں کی ایبنارملٹی کی علامت ہے جس کے باعث خون بننے کا عمل رک جاتا ہے۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں کو بار بار خون کی ضرورت پڑتی ہے۔
جینیاتی اعتبار سے تھیلیسیمیا کی دو بڑی قسمیں ہیں جنہیں الفا تھیلیسیمیا اور بیٹا تھیلیسیمیا کہتے ہیں۔ نارمل انسانوں کے خون کے ہیمو گلوبن میں دو الفا اور دو بیٹا زنجیریں ہوتی ہیں۔ گلوبن کی الفا زنجیر بنانے کی ذمہ داری دونوں جین کروموزوم نمبر 16 پر ہوتی ہے جبکہ بیٹا زنجیر بنانے کا ذمہ دار واحد جین ایچ بی بی کروموزوم نمبر 11 ہوتا ہے۔
الفا تھیلیسیمیا کے مریضوں میں ہیمو گلوبن کی الفا زنجیر کم بنتی ہے جبکہ بیٹا تھیلیسیمیا کے مریضوں میں ہیمو گلوبن کی بیٹا زنجیر کم بنتی ہے۔ اس طرح خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔
مرض کی شدت کے اعتبار سے تھیلیسیمیا کی تین قسمیں ہیں۔ شدید ترین قسم تھیلیسیمیا میجر کہلاتی ہے اور سب سے کم شدت والی قسم تھیلیسیمیا مائنر کہلاتی ہے۔ درمیانی شدت والی قسم تھیلیسیمیا انٹر میڈیا کہلاتی ہے۔
ایک طرح کا تھیلیسیمیا کبھی بھی دوسری طرح کے تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا یعنی الفا تھیلیسیمیا کبھی بھی بیٹا تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی بیٹا کبھی الفا میں۔
اسی طرح نہ تھیلیسیمیا مائنر کبھی تھیلیسیمیا میجر بن سکتا ہے اور نہ ہی میجر کبھی مائنر بن سکتا ہے۔ اسی طرح مرض کی شدت میں اضافہ یا کمی بھی نہیں ہوسکتی۔
تھیلیسیمیا میجر
کسی کو تھیلیسیمیا میجر صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اس کے والدین کسی نہ کسی طرح کے تھیلیسیمیا کے حامل ہوں۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں میں خون اتنا کم بنتا ہے کہ انہیں ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
ایسے بچے پیدائش کے چند مہینوں بعد ہی خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی بقیہ زندگی بلڈ بینک کی محتاج ہوتی ہے۔
یہ کمزور اور بیمار بچے کھیل کود اور تعلیم دونوں میدانوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور معاشرے میں صحیح مقام نہ پانے کی وجہ سے خود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں۔
بار بار خون لگانے کے اخراجات اور اسپتالوں کے چکر والدین کو معاشی طور پر انتہائی خستہ کر دیتے ہیں جس کے بعد نامناسب علاج کی وجہ سے ان بچوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بہترین علاج کے باوجود یہ مریض 30 سے 40 سال تک ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے مریضوں کی عمر لگ بھگ دس سال ہوتی ہے۔ اگر ایسے بالغ مریض کسی نارمل انسان سے شادی کر لیں تو ان کے بچے لازماً تھیلیسیمیا مائنر کے حامل ہوتے ہیں۔
تھیلیسیمیا مائنر
تھیلیسیمیا مائنر کی وجہ سے مریض کو کوئی تکلیف یا شکایت نہیں ہوتی نہ اس کی زندگی پر کوئی خاص اثر پڑتا ہے۔ علامات و شکایات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی تشخیص صرف لیبارٹری کے ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے۔
ایسے لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں مگر یہ لوگ تھیلیسیمیا اپنے بچوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔ تھیلیسیمیا مائنر میں مبتلا بیشتر افراد اپنے جین کے نقص سے قطعاً لاعلم ہوتے ہیں اور جسمانی، ذہنی اور جنسی لحاظ سے عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں اور نارمل انسانوں جتنی ہی عمر پاتے ہیں۔
تھیلیسمیا کی وجہ کیا ہے؟
طبی ماہرین کے مطابق خاندان میں شادیاں اس مرض کے بڑھنے کی اہم وجہ ہے۔ علاوہ ازیں اگر دو ایسے افراد آپس میں شادی کرلیں جن میں تھیلیسمیا مائنر کے خلیات موجود ہوں تو ان کا پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسمیا میجر کا شکار ہوسکتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق شادی سے قبل خون کا ایک معمولی ٹیسٹ آئندہ آنے والی نسل کو اس مہلک مرض سے بچا سکتا ہے۔ صوبہ سندھ میں شادی سے قبل لازمی ٹیسٹ کروانے کا بل تو موجود ہے لیکن عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 1 لاکھ سے زائد بچے تھیلیسمیا کا شکار ہیں جبکہ ہر سال ان بچوں کی تعداد میں 15 ہزار کا اضافہ ہورہا ہے جو تھیلیسمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔
اس مرض کا شکار افراد اور بچے تھکے تھکے اور دیگر افراد کی نسبت غیر متحرک ہوتے ہیں۔ تھیلیسیمیا کے باعث ان کی جلد زرد ہوجاتی ہے جبکہ انہیں ہڈیوں میں تکالیف کے امراض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔
تھیلیسیمیا مائنر میں مبتلا خواتین جب حاملہ ہوتی ہیں تو ان میں خون کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔