تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

"ستاروں کی دنیا” میں‌ "مولا جٹ” کا تذکرہ

مشہور فلمی و نیم ادبی رسالہ "شمع” میں "ستاروں کی دنیا” کے عنوان سے ایک کالم شامل ہوتا تھا جسے مدیرِ رسالہ یونس دہلوی "مسافر” کے قلمی نام سے لکھتے تھے۔ اس کالم میں فلمی دنیا کی لفظی جھلکیاں پیش کی جاتی تھیں اور یہ اس رسالے کا مقبول سلسلہ تھا۔

1990ء کے ایک شمارے میں اسی کالم میں مشہور پاکستانی فلم "مولا جٹ” کا تذکرہ کیا گیا تھا جسے ہم اپنے قارئین کی دل چسپی کے لیے یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

10 مارچ 1990ء کو مسافر کا اچانک ہی لاہور جانا ہو گیا۔ دانہ پانی کا اٹھنا سنتے تھے مگر اس روز مسافر اس محاورے پر پورا ایمان لے آیا۔ اس وقت پاکستان کے فلم ساز سرور بھٹی کی فلم "مولا جٹ” کی نمائش کا موقع تھا۔

ہندوستان میں اگر ریکارڈ توڑ فلم "شعلے” بنی ہے تو پاکستان میں ریکارڈ توڑ ہی نہیں کرسی توڑ فلم "مولا جٹ” بنی۔ کرسی توڑ اس لیے کہ مولا جٹ لاہور میں مشترکہ 216 ویں ہفتہ میں چل رہی تھی کہ حکومتِ وقت نے اس پر پابندی لگا کر اتار دیا۔

مولا جٹ 9 فروری 1979ء کو لاہور کے شبستان سینما میں ریلیز ہوئی تھی اور 3 فروری 1981ء کو 104 ویں ہفتہ میں تھی کہ اس طرح سینما سے اُچک لی گئی جیسے باغ میں کھلنے والا سب سے خوب صورت پھول اُچک لیا جاتا ہے۔

بات کورٹ کچہری تک گئی۔ ہائی کورٹ نے 27 دن کی کارروائی کے بعد 55 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا اور حکومت کے اس فعل کو غیرقانونی قرار دیا۔

25 اپریل 1981ء کو "مولا جٹ” کو پھر سے کرسیاں توڑنے اور ریکارڈ توڑنے کے لیے آئے ہوئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ اچانک 18 مئی 1981ء کو مارشل لا قوانین کے تحت فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی۔ اس طرح ‘مولا جٹ’ کی آزادی ختم ہو گئی۔

پاکستان سے مارشل لا گیا تو سرور بھٹی نے ‘مولا جٹ’ کی ‘حبسِ بے جا’ کے خلاف عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے اور 9 مارچ 1990ء کو ایک بار پھر ‘مولا جٹ’ کا راج آ گیا۔ اس بار ‘مولا جٹ’ لاہور کے دس سینما گھروں میں ایک ساتھ ریلیز کی گئی۔

مسافر نے برس ہا برس بعد لاہور کے سینما گھر میں عام پبلک کے ساتھ بیٹھ کر فلم دیکھی۔ ہندوستان میں اور پاکستان میں دونوں جگہ فلمی پبلک ایک جیسی ہے۔ انڈیا میں ہی نہیں پاکستان میں بھی ہر اچھے سین پر واہ واہ، تالیاں اور سیٹیاں بجائی جاتی ہیں۔ ‘مولا جٹ’ چونکہ ریکارڈ توڑ اور کرسی توڑ فلم تھی اس لیے منٹ منٹ پر تالیاں اور سیٹیاں بج رہی تھیں۔

‘مولا جٹ’ ہندوستان میں کئی ناموں سے، کئی کئی زبانوں میں بنی ہے۔ خود پاکستان میں مولاجٹ کی باڑھ آگئی۔ درجنوں فلمیں مولا جٹ اور فلم کے ایک کیرکٹر نوری نت کے نام پر بنیں۔ جیسے مولا جٹ ان لندن، ضدی جٹ، جٹ دا ویر، شاگرد مولا جٹ دا، مولا سائیں، مولا بخش، مولا دادا، جٹ تے ڈوگر، مولا جٹ کے نوری نت، جٹ گجرتے، نوری نت وغیرہ۔

Comments

- Advertisement -