تازہ ترین

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

یٰسین گوریجہ: پاکستانی سنیما کا مستند مؤرخ اور معتبر وقائع نگار

گزشتہ ایک صدی کے دوران سائنسی ایجادات کی بدولت داستان گوئی، نوٹنکی، کہانی یا کھیل کو عام لوگوں کی دل چسپی اور تفریح‌ کے لیے پیش کرنے کا طریقہ بھی بدل گیا اور برصغیر کی بات کی جائے تو سنیما اسکرین نے فن اور ثقافت کی دنیا میں اپنی اہمیت کو منوایا ہے۔ پاکستانی سنیما کو دیکھیں‌ تو اس کے عروج کے زمانے میں پاکستان میں‌ فلمی صحافت اور تاریخ قلم بند کرنے کا بھی آغاز ہوا۔

متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں‌ بھی روزناموں میں فلمی دنیا کی خبریں، اشتہارات، فلمی صنعت سے متعلق مختلف اعلانات وغیرہ شایع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی فلمی پرچے بازار میں آتے اور بہت سے فلمی جرائد بک اسٹالوں پر پہنچتے اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔ یہ سلسلہ قیامِ پاکستان کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا جس میں پاکستان کے واحد فلمی مؤرخ کے طور پر یٰسین گوریجہ کا نام لیا جاتا ہے۔ گوریجہ صاحب نے 26 دسمبر 2005ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔ یٰسین گوریجہ کی مرتب کردہ فلمی تاریخ اور ان کے لکھے ہوئے فلمی ستاروں‌ اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ شخصیات کی باتیں یادیں، کہانیاں اور ذاتی زندگی کے کئی دل چسپ، رنگین اور بعض سنگین مگر یادگار واقعات اور قصّے بھی مستند مانے جاتے ہیں۔

معروف صحافی اور مصنّف عارف وقار لکھتے ہیں‌ کہ فلمی صحافت سے اُن (گوریجہ) کا تعلق قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اُن کا دائرۂ کار ایکٹرسوں کے اسکینڈل تلاش کرنے یا کسی ہیرو کے تازہ ترین معاشقے کا کھوج لگانے سے بالکل مختلف تھا اور وہ فلمی دنیا کے ایک ایسے وقائع نگار بن گئے تھے جِن کے لکھے ہوئے روزنامچے مستقبل کے فلمی مورّخ کے لیے مستند اور موقّر ترین مواد فراہم کریں گے۔

یٰسین گوریجہ نے 1966 میں پاکستان کی فلمی ڈائری مرتب کرنا شروع کی تھی جو ایک قسم کی Year Book ہوتی تھی اور اس میں یہاں کی فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر شخص اور ادارے کا نام، پتہ اور فون نمبر موجود ہوتا تھا۔ سال بھر کے دوران بننے والی فلموں کی فہرست اور ہر فلم کی ضروری تفصیل بھی اُس میں درج ہوتی تھی۔ اس کی سالانہ اشاعت میں کئی بار رخنہ بھی پڑا لیکن زود یا بدیر اس کا نیا ایڈیشن ضرور شائع ہو جاتا تھا۔

کچھ عرصہ بعد یٰسین گوریجہ نے 1947 سے لے کر تاحال بننے والی تمام فلموں کی تفصیل جمع کر لی اور اسے اپنی ڈائریکٹری میں شائع کیا۔ بعد کے ایڈیشنوں میں انھوں نے قیامِ پاکستان سے پہلے بننے والی فلموں کی تفصیل بھی اکھٹی کر لی اور اس طرح ڈائریکٹری کے موجودہ ایڈیشن میں 1913 میں بننے والی ہندوستان کی اوّلین فلم سے لیکر 1947 تک بننے والی تمام انڈین فلموں کی تفصیل درج ہے جب کہ 1947 کے بعد صرف پاکستانی فلموں کا احوال ہے جو کہ دسمبر 2002 تک چلتا ہے۔

عارف وقار مزید لکھتے ہیں‌، اس ڈائریکٹری کے علاوہ یٰسین گوریجہ نے ہفت روزہ نگار میں اپنی فلمی یادیں تحریر کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا جو بعد میں کتابی شکل میں ڈھل گیا اور ’لکشمی چوک‘ کے نام سے میّسر ہے۔ اس میں پاکستان کی فلمی تاریخ کے بہت سے اہم واقعات درج ہیں جوکہ مُصنّف نے چشم دید صورت میں رقم کیے ہیں۔ نورجہاں کی زندگی اور فن پر اُن کی کتاب کسی تعارف کی محتاج نہیں اور فلمی حلقوں سے باہر بھی داد وصول کر چکی ہے۔

یٰسین گوریجہ یقیناً پاکستان کی چلتی پھرتی فلمی تاریخ تھے۔ آخری عمر تک حافظہ اتنا شان دار تھا کہ کسی بھی پرانی فلم کا سنِ تکمیل یا کاسٹ کی تفصیل وہ زبانی بتا دیتے تھے۔ اُن کے پاس پرانی فلمی تصویروں اور پوسٹروں کا بہت بڑا خزانہ تھا۔ پچھلے برس (غالباً زندگی کے آخری سال میں) جاپان سے ایک ٹیم آئی جو پوسٹروں کے فن پر ایک دستاویزی فلم بنا رہی تھی۔ یٰسین گوریجہ کے دفتر میں نایاب پوسٹروں کا ڈھیر دیکھ کر وہ سب لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ ٹیم کی لیڈر خاتون نے گوریجہ مرحوم سے اجازت لی کہ اُن کی کتاب ’لکشمی چوک‘ کا انگریزی اور جاپانی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے اور باہر کی دنیا کو یہاں کی گم نام فلم انڈسٹری سے متعارف کرایا جائے۔

یٰسین گوریجہ 1926ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 21 برس کے تھے جب قیامِ‌ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے یہاں آگئے تھے۔ یٰسین گوریجہ کی وفات کے بعد ان کی ڈائری کے کچھ حصّے سامنے آئے اس میں تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک خودنوشت کا مواد بھی اکٹھا کررہے تھے، لیکن یہ کام مکمل نہ کرسکے۔ ڈائری میں ایک جگہ انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی دور اور تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ان کی نظر میں تقسیم سے پہلے معاشرہ کیسا تھا اور بٹوارے کے بعد نفرت اور دوریوں کو وہ کیسا دیکھتے ہیں:

’آج کے دور میں جب کہ ہندوؤں کو دشمن قرار دیا جا رہا ہے اور یہ محض اس لیے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کا مسئلہ ہے ورنہ میں نے جو بیس سال ہندوؤں میں گزارے۔ آریہ ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ اسکول میں دس سال تک تعلیم حاصل کی۔ زیادہ تر دوست ہندو اور سکھ لڑکے ہی تھے، لیکن کسی قسم کا بغض یا نفرت کا جذبہ نہ تھا۔ اوم پرکاش میرا کلاس فیلو تھا۔ خالص پنڈت اور برہمن گھرانہ۔ لیکن میں ہر وقت ان کے گھر کھیلتا کودتا رہتا۔ بالکل بھائیوں جیسا پیار۔ لچھمن داس، گوبندرام، جیوتی پرکاش، رام پرکاش، جگدیش چندر، گوردیال سنگھ اب کتنے نام دہرائے جائیں۔ ان کے گھروں میں آنا جانا۔ ان کے ماں باپ بھی ہمیں اولاد کی طرح سمجھتے‘۔ٰ

یٰسین گوریجہ کی فلم ڈائریکٹری کو ان کا ایک کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں سال بھر کی فلموں کا مفصل احوال اور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر اہم شخص کے بارے میں مکمل معلومات ہوتی تھیں۔ ابتدائی ایڈیشنوں میں 1948 کے بعد کی تمام پاکستانی فلموں کا مختصر احوال اور بعد میں ماضی کی طرف 1931 تک یعنی اوّلین متکّلم فلم سے لے کر دورِ جدید تک تمام پاکستانی فلموں کا بنیادی ڈیٹا اس میں شامل کر لیا گیا۔

پاکستانی سنیما کے اس واحد وقائع نگار کا بہت سا کام ان کی زندگی میں شایع نہ ہوسکا لیکن گوریجہ صاحب کے جانشین طفیل اختر صاحب نے ان کی متعدد کتابیں تدوین اور ترتیب کے عمل سے گزار کر شایع کروائی ہیں۔ پاکستانی سنیما کی پچاس سالہ تاریخ بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے جسے مصنّف نے دس دس برس کے پانچ ادوار میں تقسیم کیا تھا اور 1947 سے 1997 پر محیط عرصہ ہے۔

Comments

- Advertisement -