لندن میں اس راندۂ زر گاہ پر کیا گزری اور کیسے کیسے باب ہائے خرد افروز ہوئے، یہ ایک الگ داستان ہے، جس میں کچھ ایسے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں، جو صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔ اسے ان شا اللہ جلد ایک علاحدہ کتاب کی شکل میں پیش کروں گا۔
امر واقع یہ کہ ”زرگزشت“ کی اشاعت کے بعد ارادہ تھا کہ کوچۂ سود خوراں میں اپنی خواری کی داستان آخری باب میں جہاں ختم ہوئی ہے، وہیں سے دوسری جلد کا آغاز کروں گا، لیکن درمیان میں لندن، ایک اور بینک، ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف اور ”آب گم“ آ پڑے۔ کچھ اندیشہ ہائے دور و دراز بھی ستانے لگے۔ مثلاً یہی کہ میرے ہم پیشہ وہ ہم مشرب و ہم راز یہ نہ سمجھیں کہ بینکنگ کیریئر تو محض ایک کیمو فلاج اور بہانہ تھا۔ دراصل یکم جنوری 1950ء یعنی ملازمت کے روز اوّل ہی سے میری نیت میں فتور تھا۔ محض مزاح نگاری اور خودنوشت کے لیے سوانح اکٹھے کرنے کی غرض سے فقیر اس حرام پیشے سے وابستہ ہوا (وہ بھی کیا زمانہ تھا جب حرام پیسے کی صرف ایک ہی شکل ہوا کرتی تھی، سود) دوسری حوصلہ شکن الجھن جو زرگزشت حصہ دوم کی تصنیف میں مانع ہوئی، یہ تھی کہ یہ اردو فکشن ناموں کی شکل میں۔ افسانے اور ناول کی گَرد کو نہیں پہنچتے۔ افسوس، میرے یہاں سوانح کا اتنا فقدان ہے کہ تادم تحریر زندگی کا سب سے اہم واقعہ میری پیدایش ہے (بچپن کا سب سے زیادہ قابل ذکر واقعہ یہ تھا کہ میں بڑا ہو گیا) اور غالباً آپ بھی مجھ سے متفق ہوں گے کہ اس پر میں کوئی تین ایکٹ کا سنسنی خیز ڈراما نہیں لکھ سکتا۔ تیسرا سبب خامۂ خود بین و خود آرا کو روکے رکھنے کا یہ کہ اس اثنا میں لارڈ کونٹن کے تاثرات نظر سے گزرے۔ وہ ٹرینٹی کالج، آکسفورڈ کا صدر اور بورڈ آف برٹش لائبریری کا چیئر مین ہے۔ علمی و ادبی حلقوں میں عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ذاتی کتب خانے میں بیس ہزار سے زائد کتابیں ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میں خود نوشت سوانح عمری کو سوانح عمری کے ساتھ کبھی نہیں رکھتا، مزاح کی الماری میں رکھتا ہوں۔
عاجز اس ذہانت پر ہفتوں اَش اَش کرتا رہا کہ اس کی خود نوشت سوانح نو عمری زرگزشت پڑھے بغیر وہ زیرک اس نتیجے پر کیسے پہنچ گیا۔ ابھی اگلی ظرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔
(مشتاق احمد یوسفی کی تصنیف ”آب گم“ کا ایک ورق)