تازہ ترین

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

مشاعروں میں ہوٹنگ کے ‘فوائد’

مشاعرے تو بہت ہوتے ہیں، لیکن ہر مشاعرہ کام یاب نہیں ہوتا اور صرف کام یابی بھی کافی نہیں ہوتی۔ مشاعرہ اچّھے نمبروں سے کام یاب ہونا چاہیے۔ ایسی ہی کام یابی سے مشاعروں کا مستقبل روشن ہوتا ہے۔ مشاعروں کی کام یابی کا انحصار اب ہوٹنگ پر ہے۔ ہوٹنگ معرکے کی ہوگی تو مشاعرہ بھی معرکۃ الآرا ہوگا۔

دیکھا گیا ہے کہ بڑے شہروں میں جہاں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں ہوٹنگ کا معیار اچھا خاصا ہے، لیکن اضلاع کے سامعین ہوٹنگ کے معاملے میں ابھی پسماندہ ہیں۔ بعض اضلاع میں اس کا معیار ٹھیک رہا ہے، لیکن اس سلسلے میں ابھی انہیں بہت کام کرنا ہے۔ مشاعروں کے سیزن میں اضلاع کے کچھ مندوبین کو بڑے شہروں کے مشاعروں میں حاضر رہنا چاہیے۔

مشاعرہ ورک شاپ میں حصہ لیے بغیر اچھی ہوٹنگ نہیں آتی۔ بڑے شہروں میں تو بعض مشاعرے ایسے بھی ہوئے ہیں کہ مشاعرے کے دوسرے دن مشاعرہ گاہ کی چھت کی مرمت کروانی پڑی ہے، اس لیے اب زیرِ سما مشاعروں کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ زیرِ سما مشاعروں میں، شاعر تو نہیں لیکن سامعین سماں باندھ دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مشاعروں میں شاعروں کے کلام کا مقابلہ ہوتا ہے، اب سامعین کے کمال کا مقابلہ ہوتا ہے۔ مشاعرے بھی ٹکٹ سے ہونے لگے ہیں جو ایک لحاظ سے اچھی بات ہے۔

صحیح معنوں میں مشاعرہ وہ ہوتا ہے جب مشاعرہ گاہ میں زندگی رواں دواں ہو، مشاعرہ گاہ میں کیفیت کچھ ایسی ہونی چاہیے، جس سے یہ معلوم ہو کہ شاعروں کو سننے سامعین نہیں آئے، سامعین کا مورچہ آیا ہوا ہے۔ خوب صورت پنڈال جگمگاتا شہ نشین اور جگہ جگہ ایک ہزار کینڈل پاور کے قمقمے یہ سب بیکار ہیں۔ اصل چیز ہے ہوٹنگ۔ مشاعروں میں یہ نہ ہو تو منتظمینِ مشاعرہ مایوس ہوجاتے ہیں۔ ان کے سارے کیے کرائے پر پانی پِھر جاتا ہے۔

مشاعروں میں ہوٹنگ کی ابتدا کب اور کہاں ہوئی اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مشاعرہ خود اور مشاعرے کے دیگر لوازمات (جن میں ہوٹنگ شامل ہے) شمالی ہند کی دین ہیں۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی رسمِ اجرا کہاں انجام دی گئی۔ تحقیق اس بات کی کرنی چاہیے کہ ٹکٹ سے پہلا مشاعرہ کس جگہ منعقد ہوا؟ اسی مشاعرے میں سامعین نے شور مچایا ہوگا۔ اسی احتجاج نے بعد میں ہوٹنگ کی شکل اختیار کی۔

ہوٹنگ اب شوق یا شغل نہیں ہے، ایک فن ہے اور اس میں بھی وہی صنائع بدائع ہونے چاہییں جو شاعری میں مستعمل ہیں۔ ہوٹنگ میں اسقام کا پایا جانا معیوب ہے۔ کچھ لوگوں نے عملی تنقید کی طرح عملی ہوٹنگ کی بھی کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر شاعروں کی سرکوبی کے لیے عملی ہوٹنگ سے کام لیا گیا ہے، لیکن ان وارداتوں میں ‘ایلڈرس’ نے کبھی حصّہ نہیں لیا۔ ان وارداتوں کو ‘یوتھ فیسٹول’ سمجھ کر شاعروں کی تاریخ سے حذف کردینا چاہیے۔

ہوٹنگ دل چسپی کی چیز ہے، دل شکنی کاحربہ نہیں۔ اسی لیے عملی ہوٹنگ مقبول نہیں ہوسکی۔ مشاعروں میں آلات و ظروف استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس کی بات اور ہوتی ہے۔

(یوسف ناظم کا تعلق بھارت سے تھا، ان کا شمار اردو کے معروف طنز و مزاح نگاروں میں ہوتا ہے، پیشِ نظر مقتَباسات یوسف ناظم کے شگفتہ مضمون کے ہیں)

Comments

- Advertisement -