تازہ ترین

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج روانہ ہوگا

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج چین...

دیامر: مسافر بس کھائی میں گرنے سے 20 مسافر جاں بحق، متعدد زخمی

دیامر: یشوکل داس میں مسافر بس موڑ کاٹتے ہوئے...

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

زہرہ بائی انبالہ والی کا تذکرہ

برصغیر میں کلاسیکی فنِ موسیقی میں کئی گھرانوں کی شخصیات ممتاز ہوئیں اور ان کے علاوہ کئی پیشہ وَر رقاصہ اور گلوکار بھی اپنے فن و کمال کے سبب مشہور ہوئیں۔ یہ طوائف، مغنّیہ اور بائی کے لقب سے پہچانی جاتی تھیں۔ زہرہ بائی انبالے والی انہی میں سے ایک تھیں جنھوں نے ریڈیو اور فلم کے ساتھ نجی محافل میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب داد پائی۔

بیسویں صدی کے آتے آتے ہندوستان میں نہ تو بادشاہت رہی تھی اور نہ ہی وہ راجہ، سلطان اور نواب جو ان بائیوں کا گانا سن کر اپنا دل بہلاتے اور ان پر اپنی دولت لٹاتے۔ اسی طرح پکّے راگ راگنیوں اور کلاسیکی موسیقی کا ذوق رکھنے والے بھی نہیں رہے تھے۔ مگر انیسویں صدی کے آخری برسوں تک یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت ضرور قائم رہا۔ زہرہ بائی کا سنہ پیدائش 1918ء ہے، اور وطن انبالہ۔ اس دور میں طوائفوں کے نام کی مماثلت بھی لوگوں کو الجھن میں ڈال دیتی تھی۔ اگرچہ زہرہ بائی کی ہم نام معروف طوائف دنیا میں نہیں رہی تھیں، لیکن ہندوستان بھر میں موسیقی اور گلوکاری میں ان کا بہت چرچا تھا۔ وہ آگرہ والی تھیں اور اسی لیے زہرہ بائی کے ساتھ لاحقہ آگرہ والی لگا رکھا تھا ان کے بعد آنے والی یہ زہرہ بائی انبالہ والی کہلائیں۔ وہ 1930 سے اگلی ایک دہائی تک مصروف گلوکارہ رہیں‌ اور انھیں چالیس کی دہائی کے وسط کی سب سے مقبول پلے بیک سنگر کہا جاتا ہے۔

زہرہ بائی انبالہ والی نے اپنے شوق سے موسیقی اور گلوکاری کو اپنایا۔ ان کا خاندان گلوکاری کو بطور پیشہ اپنائے ہوئے تھا، تاہم انھوں نے آگرہ گھرانے سے باقاعدہ موسیقی کی تربیت حاصل کی تھی۔ بچپن میں ان کی تعلیم و تربیت ان کے دادا غلام حسین خان اور اس کے بعد استاد ناصر حسین خان کے زیرِ‌ سایہ ہوئی۔ زہرہ بائی انبالہ والی 14 سال کی عمر میں ہی باقاعہد گانے لگی تھیں۔

انبالے والی زہرہ بائی نے اپنے کیریئر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو سے بطور گلوکارہ کیا تھا۔ وہ بنیادی طور پر کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی پیش کرتی تھیں۔ بعد میں وہ فلمی صنعت کے لیے اپنی آواز کا جادو جگانے لگیں اور 1950ء میں یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ زہرہ بائی انبالہ والی 1990ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔

زہرہ بائی انبالے والی کو زیڈ اے بخاری کی جوہر شناس نظروں نے پہچان کر ریڈیو پر متعارف کروایا تھا۔ وہ اُن دنوں آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ وہاں استاد فیاض احمد خاں جیسے نامور لوگ بھی موسیقی کے شعبے سے منسلک تھے۔ ریڈیو سے وابستہ ہونے کے بعد ہی ان کی شہرت فلمی دنیا تک پہنچی۔ زہرہ بائی نے ایک گرامو فون کمپنی کے لیے بھی اپنی کھنک دار آواز میں ریکارڈنگ کروائی۔ ریڈیو پر بھی وہ بہت مصروف رہیں۔ زہرہ بائی انبالہ والی نے ٹھمری، دادرا، بھیرویں، خیال، غزل اور گیت سب گائے۔ 1944 میں بننے والی فلم ’’رتن‘‘ کے گیتوں نے زہرہ کو لازوال شہرت دی اور اس کے گیت امر ہوگئے۔ آج بھی ان فلموں کے سدا بہار گیت شائقین ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔ ’’رتن‘‘ کے بعد ’’انمول گھڑی‘‘ 1946 میں، ’’میلہ‘‘ 1948 میں ’’جادو‘‘ 1951 میں ریلیز ہوئی تھیں جب کہ 1945 میں وہ مشہورِ زمانہ فلم بنی جس کا نام ’’زینت‘‘ تھا۔ اس کی ایک ’’آہیں نہ بھریں‘ شکوے نہ کیے کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا ‘‘ بہت مقبول ہوئی تھی جسے زہرہ بائی، نور جہاں اور کلیانی نے گایا تھا۔

مشرقی پنجاب کے شہر انبالے میں جنم لینے والی زہرہ بائی کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولا اور ماہرینِ فن کے مطابق ان کی صاف، نکھری ہوئی آواز میں قدرتی طور پر ایک چاشنی تھی جو سننے والوں کو متاثر کرتی تھی۔ زہرہ کا شمار ان گلوکاراؤں میں ہوتا ہے جن کی آواز کی رینج بہت زیادہ تھی۔ لیکن انھوں نے ہمیشہ مدھم اور نچلے سُروں میں گایا۔ ان ایک گیت جو بہت مقبول ہوا، یہ تھا۔

پسِ دیوارکھڑے ہیں، تیرا کیا لیتے ہیں
دیکھ لیتے ہیں، تپش دل کی بجھا لیتے ہیں

Comments

- Advertisement -