اسلام آباد : دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ملزم ذکی الرحمان لکھوی کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست ضمانت کی نظر ثانی کی ایک اور سماعت ہوئی۔
سماعت جسٹس نورالحق قریشی نے کی۔ سماعت کے دوران جسٹس نورالحق قریشی نے طنزیہ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیڈریشن جب چاہے عدالت میں آ جائے لیکن اگر عدالت ڈائریکشن دے تو اس پر عمل درآمد نہیں کرنا۔
ایڈوکیٹ جنرل میاں عبدالرؤف نے عدالت کو بتایا کہ میں اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے پیش ہو رہا ہوں جب کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل افنان کنڈی وزارت داخلہ اور وفاق کی جانب سے پیش ہو رہے ہیں ۔
ایڈوکیٹ جنرل میاں عبدائروف نے عدالت کو بتایا کہ ممبئی حملہ کیس کے مرکزی ملزم ذکی الرحمان لکھوی کے وکیل کے سامنے ثبوت پیش کئے جائیں تو وہ اپنا وکالت نامہ لے لیں گے۔ جس پر جسٹس نورالحق قریشی نے ذکی الرحمان لکھوی کے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ سچ ہے۔
ذکی الرحمان کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ الزام تو لگتے رہتے ہیں لیکن ابھی تک کوئی چیز ثابت نہیں ہوئی۔ ممبئی حملہ کیس کے بعد انڈین کمیشن نے حافظ سعید احمد اور ذکی الرحمان لکھوی کو القاعدہ کے رہنما کے طور پر نشان دہی کی تھی ۔
کل کی سماعت کے دوران عدالت میں ذکی الرحمان لکھوی کو پیش کرنے کا حکم بھی جاری کردیں ۔کیونکہ گزشتہ سماعت میں اس کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ جب کہ اسلام آباد انتظامیہ نے رات بارہ بجے کے بعد ذکی الرحمان لکھوی پر مزید کیس لگا دئیے ہیں۔
جس پر جسٹس نور الحق قریشی نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ ایسی ہی ہے کہ جب عدالت ان کی رہائی کا حکم دیتی ہے تو ان پر مزید کیسز بنا دئیے جاتے ہیں۔بھارت کے دباؤ کے باعث حکومت ذکی الرحمان لکھوی کو رہا نہیں کررہی ہے۔کل کیس کی سماعت ان کیمرہ ہوگی۔عدالت نے ذکی الرحمان کیس سے متعلق تمام شواہد پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ اس قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں گزشتہ سماعت کے دوران ذ کی الرحمان لکھوی کی ضمانت منظور کی تھی اور 5لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا تا ہم ضمانت منظور ہوئی تو حکومت کی جانب سے نقص امن کے خدشے کے پیش نظر30روز کی نظر بندی کا حکم جاری کیا گیا۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد ممبئی حملہ کیس کے ملزم ذکی الرحمان لکھوی کی نظر بندی کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔