کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کے دوران دس ہزار سے زائد ملزمان کی گرفتاری کادعویٰ کیا گیا ہے۔ مگر چند ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ملزمان تاحال قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔
شہر قائد میں پولیس اور رینجرز جرائم کے خاتمے کیلئے پرعزم تو لگتی ہے،کامیاب نہیں،کیونکہ سینکڑوں چھاپوں میں جن درجنوں ملزمان کو گرفتار کیاگیا ان میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث ہیں یا صرف شک کی بنیاد پر دھر لئے گئے ہیں جبکہ ٹارگٹ کلنگ کے کئی اہم کیسز اب بھی پولیس کے سر کا درد بنے ہوئے ہیں۔
مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ دیدارجلبانی کو محافظ سمیت یونیورسٹی روڈ پر نامعلوم ملزمان نے نشانہ بنایا اور اسی روز نارتھ ناظم آباد میں2مراکشی علما سمیت تبلیغی جماعت کے 3اراکین بے دوردی سے قتل کردیئے گئے،قاتل کون تھے کئی روز گزر جانے کے باوجود ملزمان کی گرفتاری کیوں عمل میں نہیں آسکی سوال اپنی جگہ قائم ہے۔ کئی ماہ گزر گئے۔ نیوٹاون میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے شیخ الحدیث مولانا اسلم شیخوپوری کے قاتلوں کا بھی سراغ نہ مل سکا۔ ڈیفنس میں قتل کی جانے والی تحریک انصاف کی رہنما زہرہ شاہد کے قاتل بھی تاحال نامعلوم ہیں۔
شہر میں سیکورٹی اداروں کے متحرک ہوتے ہی دہشتگردی وقتی طور پر تھم جاتی ہے مگر اچانک قاتل موت بانٹنا شروع کردیتے ہیں۔ رواں سال لیاری سے تعلق رکھنے والے ظفر بلوچ اور کئی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان کو سرعام قتل کیا گیا مگر تفتیش میں پیشرفت اور اہم ملزمان کی گرفتاری صفر بٹا صفرہے۔