کراچی: سندھ پولیس کے ایک انتہائی سینئرافسرنے انکشاف کیا ہے کہ سانحہ صفورا کے ملزمان کے پاس سے ہٹ لسٹ برآمد ہوئی ہے جس میں صحافیوں، فیشن ڈیزائنرزاورحکومتی افسران کے نام درج ہیں۔
سندھ پولیس کے انسدادِ دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے افسرراجہ عمرخطاب نے پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاہے کہ اسماعیلی برادری کو صفورہ چوک پرنشانہ بنانے والے ملزمان در حقیقت داعش نامی دہشت گرد تنظیم کے طرزعمل سے متاثرہیں اوراس عالمی دہشت گرد تنظیم سے اپنا تعلق استوار کرنا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پانچوں ملزمان سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تفتیش مکمل کرلی ہے۔ ملزمان میں طاہر، سعد عزیز، حافظ نصیراحمد، محمد اظہرعشرت اوراسد رحمان شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سانحہ صفورہ کا مرکزی ملزم طاہرعرف سائیں پہلے القائدہ کے ساتھ کام کرتا تھا لیکن جلال نامی ایک اوردہشت گرد سے مالی اور تنظیمی معاملات پر اختلاف کے بعد اس نے القائدہ سے علیحدگی اختیار کرکے اپنا علیحدہ گروہ تشکیل دے دیا جبکہ جلال القائدہ کے ساتھ کام کرتا رہا۔
عمرخطاب کا کہنا تھا کے تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ مذکورہ گروہ دو درجن سے زائد قتل وغارت کی وارداتوں میں ملوث ہے۔
سانحہ صفورہ
سانحہ صفورہ کے متعلق انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں نے اس کی منصوبہ بندی دوماہ قبل کی تھی اوراس دوران انہوں نے 5 باربس کی ریکی کی اورایک نقشہ تیارکیا جس میں چھ مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ کم سے کم 10ملزمان نے واردات میں براہ راست حصہ لیا تھا جبکہ باقی دو نزدیک ہی ایک گاڑی میں موجود تھے۔
’’ چھ حملہ آوربس میں داخل ہوئے جن میں سے چند نے پولیس یونیفارم پہن رکھی تھی جبکہ باقی سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے۔ چارحملہ آوروں نے مسافروں کو گولیاں ماریں، ایک نے بس چلائی جبکہ ایک دروازے پر موجود رہا کہ کوئی شخص فرار نا ہوپائے ‘‘۔
عمرخطاب کے مطابق حملہ آوروں نے غیر ملکی اسلحہ استعمال کیا اوران کا تمام تر منصوبہ مکمل ہونے میں 10 سے 12 منٹ کا وقت صرف ہوا۔
سبین محمود قتل
راجہ عمرخطاب کا کہنا تھا کہ سماجی رہنماء سبین محمود کے قتل میں سعد عزیزمرکزی ملزم ہے۔ انہیں قتل کرنے سے قبل سعد نے انکے سماجی فورم ’’دی سیکنڈ فلور‘‘ پر منعقد ہونے والے دو سیمیناروں میں شرکت کی تھی۔ اس موقع پروہ تصویر بھی جاری کی گئی جس میں سعد عزیزوہاں بیٹھا نظرآرہا ہے۔
ان کے مطابق ’’سعد عزیز نے سبین محمود کو اس لئے قتل کیا کہ وہ ان کے لال مسجد، ویلنٹائن ڈے اوربرقعے سے متعلق نظریات کو پسند نہیں کرتا تھا‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ جب سسبین محمود اپنی والدہ اورڈرائیور کے ہمراہ اپنے دفترسے نکلیں تو سعداورمحمود نے موٹرسائیکل پران کا پیچھا کیا اورڈیفنس کے ٹریفک سگنل پرانہیں نشانہ بنایا۔