ورلڈ کپ 1992 اپنی دلچسپ تاریخ اور پاکستان ٹیم کے گر کر اٹھنے کے بعد علامہ اقبال کے اس شعر کے مصرع کی عملی تفسیر بن گیا کہ پلٹ کر جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا جس نے پاکستان کو کرکٹ کا نیا بادشاہ بنایا۔
ورلڈ کپ 1992 اب تک کھیلے گئے 12 میگا ایونٹ کے دلچسپ ترین ٹورنامنٹ میں سر فہرست ہے جس میں انڈر ڈاگ کے طور پر ایونٹ میں شامل ہونے والی ٹیم پاکستان جب گرتے پڑتے آگے بڑھی تو پھر ایسی سنبھل کر اٹھی کہ کسی مخالف کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا اور سب بڑے ناموں کو پچھاڑتی ہوئی عالمی چیمپئن بن گئی اور گرین شرٹس کا یہ کارنامہ دیکھ کر دنیا حیران رہ گئی۔
یہ میگا ایونٹ پہلی بار آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مشترکہ میزبانی میں 22 فروری سے 25 مارچ 1992 تک کھیلا گیا۔ اس دوران وہاں کئی میچز بارش سے بھی متاثر ہوئے لیکن ایک بارش اپنے حقیقی معنوں میں پاکستان کے لیے رحمت ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں گرین شرٹس فائنل فور میں پہنچی اور پھر مڑ کر نہ دیکھا۔ یہ مہینہ بھی رمضان کا بابرکت مہینہ تھا کہ جب ٹیم اٹھ کر جیت کی لگن سے آگے بڑھی تو قوم نے دعاؤں کے لیے ایسے ہاتھ اٹھائے کہ اللہ تعالیٰ نے فتح پاکستان کا مقدر کی اور 25 مارچ 1992 کو کپتان عمران خان نے ورلڈ کپ کی وہ لازوال کرسٹل ٹرافی اٹھائی جس کو ناقدین اب بھی ورلڈ کپ کی تاریخ کی سب سے خوبصورت ترین ٹرافی قرار دیتے ہیں۔ یہ عمران خان کا آخری انٹرنیشنل میچ بھی تھا یوں عظیم عمران خان نے اپنے 22 سالہ کرکٹ کیریئر کا وہ شاندار اختتام کیا جو اس سے پہلے کسی کرکٹر کو نصیب نہیں ہوا تھا۔
1990 کی دہائی میں مخالف ٹیموں کے بیٹرز کے لیے اپنی تیز بولنگ کی وجہ سے دہشت بن جانے والے پاکستانی فاسٹ بولر وقار یونس کا ورلڈ کپ سے چند دن قبل ان فٹ ہوکر پورے میگا ایونٹ سے باہر ہونا کسی سانحے سے کم نہیں تھا جب کہ ریکارڈ ساز بیٹر جاوید میاں داد کو بھی ابتدائی اسکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا تھا جنہیں عوام کے پر زور اصرار اور اعلیٰ حکام کی مداخلت کے بعد آخری لمحات میں اسکواڈ میں شامل کیا جنہوں نے پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار ادا کر کے اس فیصلے کا پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا سب سے درست فیصلہ بنا دیا۔ دوسری جانب ورلڈ کپ سے قبل پاکستان ٹیم کی ناقص کارکردگی پر بھی سوالیہ نشانات اٹھ رہے تھے اسی وجہ سے 1992 کے ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل پاکستان کو کوئی بھی کرکٹ مبصر ٹاپ فور ٹیموں میں شمار ہی نہیں کر رہا تھا۔
پھر جب ورلڈ کپ شروع ہوا تو ابتدائی میچ میں ویسٹ انڈیز سے شکست، انگلینڈ سے بارش کی وجہ سے یقینی شکست سے بچت، جنوبی افریقہ اور بھارت سے شکست کے اور واحد زمبابوے کی فتح کے بعد میگا ایونٹ کے راؤنڈ میچ میں پاکستان اپنے 8 میں سے 5 میچز کھیل لینے کے بعد پوائنٹس ٹیبل پر سب سے آخر میں صرف زمبابوے سے ہی اوپر تھی لیکن پھر رمضان کی برکت اور سحری کے وقت مانگی جانے والی دعاؤں کی قبولیت نے قدرت کے وہ کرشمے دکھائے کہ نا قابل یقین بات ہی سب سے بڑی حقیقت بن کر سامنے آ گئی۔
پانچوں ورلڈ کپ پاکستان کرکٹ کو تاریخ کے اس سنہرے مقام پر لایا جہاں ہر ٹیم پہنچنے کی تمنا دل میں رکھتی ہے۔ 33 روزہ یہ پورا ایونٹ ناقابل یقین جذبوں اور کسی بھی حالت میں ہمت نہ ہارنے کے عملی مثال بن کر سامنے آتا ہے جو اپنی تمام تر ہنگامہ خیزیوں کے ساتھ پاکستان شائقین کے دلوں میں ہمیشہ ایک خوشگوار یاد کے طور پر نقش رہے گا۔
پانچویں ورلڈ کپ کے لیے متعارف کرائے گئے نئے قواعد:
یہ ایونٹ 33 روز تک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے 18 کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا گیا۔ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا رنگین ورلڈ کپ جس میں تمام ٹیموں نے روایتی سفید کے بجائے اپنے اپنے ممالک کے جھنڈوں سے ہم آہنگ رنگ برنگی شرٹس پہنیں جنہیں دیکھ کر اب تک سفید لباس والے کرکٹرز کو دیکھنے کے عادی شائقین کرکٹ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئے اور پھر یہ چلن ایسا چلا کہ کرکٹ وقت گزرنے کے ساتھ مزید رنگین ہوتی گئی لیکن شاید نئی نسل کے بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ 1992 سے قبل ایک نجی کرکٹ لیگ جو تنازع کا شکار ہوکر اپنے انجام کو پہنچی 1977 میں کرکٹ کو رنگین کر چکی تھی جس کو کیری پیکر سیریز کا نام دیا گیا تھا جو آسٹریلوی میڈیا گروپ نے متعارف کرائی تھی۔
1992 کے ورلڈ کپ میں مجموعی طور پر 39 میچز کھیلے گئے اور پہلی بار 3 میچز ڈے اینڈ نائٹ کھیلے گئے جب کہ بارش سے متاثرہ میچز کے لیے ڈک ورتھ لوئس سسٹم متعارف کرایا جس سے پہلا ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹیم جنوبی افریقہ نے ایسا زخم کھایا کہ جو 31 سال بعد بھی مندمل نہ ہو سکا اور ہر بڑے ایونٹ کا بڑا میچ اس کے اس زخم کو نئی شکست کے ساتھ تازہ کر دیتا ہے۔
اس ورلڈ کپ کے لیے کچھ نئے قوانین بھی متعارف کرائے گئے جس نے ون ڈے کرکٹ کو مزید سنسنی خیز، دلچسپ اور تیز ترین بنانے میں کردار ادا کیا جس نے آگے چل کر ایک اور مقبول صنف ٹی 20 کرکٹ کے روپ میں کامیابیوں کی نئی بلندیوں کو چھوا۔ ان میں سے ایک فیلڈنگ پلان تھا جس میں پہلے 15 اوورز میں صرف دو فیلڈر سرکل کے باہر رہ سکتے تھے۔
ورلڈ کپ 1992 میں پہلی بار 9 ٹیموں نے شرکت کی نئی ٹیم جنوبی افریقہ تھی جس پر عالمی کرکٹ کے دروازے پابندی ختم ہونے کے بعد وا ہوئے اور اس نے اپنے پہلے ہی ایونٹ میں ایسی شاندار کارکردگی دکھائی کہ ایونٹ کی ہاٹ فیورٹ بن گئی لیکن پھر سیمی فائنل میں وہ ہوا جس کا کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا اور ڈک ورتھ لوئس سسٹم کا 92 والا فارمولا آئی سی سی کے لیے نئی بدنامی بن گیا جس کا ذکر آگے کی جانب بھی آئے گا۔
اس سے پہلے ورلڈ کپ کے چاروں ایونٹ دو گروپ کی بنیاد پر پہلے گئے لیکن 1992 میں ٹیمیں 9 ہونے کے باعث پہلی بار اس کو سنگل راؤنڈ رابن بنیاد پر کھیلے گئے اور ہر ٹیم نے مخالف کے ساتھ ایک ایک میچ کھیلا اور ٹاپ فور ٹیموں نے سیمی فائنلز کے لیے کوالیفائی کیا۔
ٹورنامنٹ میں سنسنی خیر اتار چڑھاؤ آئے اور ناقابل یقین نتائج دیکھنے کو ملے۔ ورلڈ کپ سے قبل آسٹریلیا کی ٹیم فیورٹ قرار دی جارہی تھی ، مگر وہ سیمی فائنل تک بھی نہ پہنچ سکی ، اس طرح نیوزی لینڈ جسے کمزور ٹیم کہا جا رہا تھا ، لیگ کے ابتدائی 8 میچوں میں تمام ٹیموں کے لیے ناقابل شکست رہی پھر پاکستان نے آخری لیگ میچ میں سب کے لیے ناقابل شکست بن جانے والی ٹیم کو یوں شکست دی کہ پھر کپ جیت کر ہی پیچھے مڑ کر دیکھا۔
گرتے ہی شہسوار ہی میدان جنگ میں:
پاکستان کی ورلڈ کپ 1992 کے ابتدائی 5 میچز کی کارکردگی کو دیکھا جائے اور اس کے بعد اس کے آگے بڑھنے کا عزم دیکھا جائے تو ابتدائی ناکامیاں اسی مثل پر صادق آتی ہیں کہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں۔
ایونٹ میں اپنے ابتدائی میچ میں ویسٹ انڈیز سے 10 وکٹوں سے شکست کے پہلی فتح زمبابوے سے ملی۔ اگلے میچ میں بارش رحمت بن کر برسی اور 74 رنز کے قلیل اسکور پر آؤٹ ہونے والی گرین شرٹس کو ایک یقینی شکست سے بچا گئی جو بعد میں واقعی پاکستان کے لیے رحمت ثابت ہوئی کہ اس سے ملنے والا ایک قیمتی پوائنٹ ہی پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچانے کا باعث بنا۔ اگلے دو میچز بھی قومی ٹیم بھارت اور جنوبی افریقہ سے ہار گئی تھی۔
پانچ میچوں میں تین شکستوں اور ایک فتح اور ایک برابری کے بعد پاکستان پوائنٹس ٹیبل پر سب سے آخری ٹیم زمبابوے سے اوپر آٹھویں نمبر پر تھا اور اس کے اگلے میچ آسٹریلیا، نا قابل شکست نیوزی لینڈ، سری لنکا کے ساتھ تھے جب کہ گرین شرٹس کی ٹورنامنٹ میں جاری کارکردگی کو دیکھ کر کسی کو بھی اس ٹیم کے آگے بڑھنے کی امید نہیں تھی خود کھلاڑی بھی حوصلہ ہار بیٹھے تھے۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب کھلاڑی شدید ترین مایوسی کا شکار ہوئے پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قومی کھلاڑی روتے دکھائی دیے حد تو یہ ہوئی کہ ورلڈ کپ منتظمین نے 21 مارچ کو کرائسٹ چرچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف شیڈول آخری راؤنڈ میچ کے بعد پاکستان کی وطن واپسی کے لیے کرائسٹ چرچ سے وایہ سنگاپور کراچی کے لیے ٹکٹیں تک بُک کروا لی تھیں۔
پھر تاریک سیاہ اندھیروں میں ایک روشنی کی جھلک دکھائی دی کہ جس کی راہ نمائی میں ٹیم نے سفر ایک ایسے وقت میں شروع کیا جب کہیں کوئی روزن نظر نہیں آ رہا تھا۔
مشکل سے مشکل حالات میں بھی ہمت نہ ہارنے کے حوالے سے مشہور اس وقت کے کپتان عمران خان نے ڈریسنگ روم میں ایک ولولہ انگیز خطاب کرکے ٹیم میں جیت کا ایسا نیا جوش بھرا کہ لگتا تھا کہ ٹیم کو کوئی بوسٹر ڈوز دیا گیا ہے۔ اس وقت میڈیا میں شائع رپورٹس کے مطابق عمران خان نے ڈریسنگ روم میں کہا کہ ہم تین میچز ہار گئے تو کیا تین میچز باقی ہیں ہم اب بھی گیم میں اِن ہیں اور یہ تمام میچز جیت کر ورلڈ کپ بھی جیتیں گے۔ ان کی ہمت بندھاتی اس تقریر نے نوجوان کھلاڑیوں میں وہ برق بھری کہ پھر نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میچ سے ایک رات قبل شدید بیمار انضمام پر جب عمران خان نے بھروسہ کرکے انہیں اہم میچ کھیلنے پر راضی کیا تو وہ پاکستان کو جتوا کر قومی ٹیم کا نیا مرد بحران نوجوان ہیرو اور مین آف دی میچ بن کر میدان سے باہر آیا۔
پلٹ کر جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا:
اگلے میچوں میں گرین شرٹس کی کارکردگی پھر ایسی رہی کہ دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کو 48 رنز سے زیر کر کے اس کا غرور خاک میں ملایا۔ میچ کے ہیرو نوجوان اوپنر عامر سہیل رہے جنہوں نے 78 رنز کی اننگ کھیلی۔ اگلے میچ میں آسان شکار سری لنکا کو بھی دبوچ لیا۔ اب اصل امتحان گرین شرٹس کے لیے لیگ کا آخری میچ نا قابل شکست نیوزی لینڈ کے خلاف تھا۔
نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 48.2 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر 166 رنز بنائے۔ 167 رنز کے قدرے آسان ہدف کو پاکستان نے ہنستے کھیلے 44.4 اوورز میں پورا کرکے میچ اپنے نام کیا اور پوائنٹس ٹیبل پر 9 پوائنٹ کے ساتھ اپنے سیمی فائنل میں جانے کی امیدوں کو برقرار رکھا۔
اب ایونٹ میں وہ وقت شروع ہوا جب کھلاڑیوں کی ابتدائی کاوشوں اور کارکردگی ختم اور دعاؤں کا وقت شروع ہوا کیونکہ گروپ کا آخری میچ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تھا۔ نیوزی لینڈ 7 میچز کی فتح کے ساتھ سر فہرست اور جنوبی افریقہ پانچ فتوحات کے ساتھ دوسرے نمبر پر آنے کے ساتھ سیمی فائنلز کے لیے کوالیفائی کرچکی تھی۔ پاکستان اور انگلینڈ نے چار چار میچز جیت اور ایک بے نتیجہ رہنے کے باعث 9، 9 پوائنٹس کے ساتھ برابر تھے تاہم رن ریٹ کے فرق کی بنا پر انگلش ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر تیسرے نمبر پر تھی۔
آخری لیگ میچ سے قبل آسٹریلیا نے 3 میچز جیت کر صرف 6 پوائنٹ حاصل کر رکھے تھے اور وہ جیت کر بھی اگلے مرحلے تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی تھی تاہم ویسٹ انڈیز نے چار میچز جیت کر 8 پوائنٹ لے رکھے تھے اور اس کی کسی بھی مارجن سے جیت یا بارش سے بے نتیجہ میچ بھی پاکستان کو خالی ہاتھ وطن واپسی پر مجبور کر سکتا تھا۔
یہ میچ بھی حسب معمول سحری کے وقت شروع ہوا تو رمضان المبارک کے بابرکت روزے کی سحری کرتے ہوئے پاکستان قوم کے ہاتھ آسٹریلیا کی فتح کے لیے اٹھے یہ وہ انہونا وقت تھا جب لگتا تھا کہ میدان میں آسٹریلیا نہیں بلکہ قومی ٹیم غلطی سے پیلے لباس میں کھیل رہی ہے کیونکہ ہر کوئی اس کی فتح کے لیے ہی دعا گو تھا۔
میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں 18 مارچ کو آخری لیگ میچ میں آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اسکور بورڈ پر مقررہ 50 اوورز کے اختتام پر 6 وکٹوں کے نقصان پر 216 رنز کا ہندسہ سجایا اور ویسٹ انڈیز کو اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے 217 رنز کا ہدف دیا تاہم غیر متوقع طور پر ویسٹ انڈیز اس میچ میں صرف 159 رنز پر ہمت ہار بیٹھی اور یوں یہ میچ آسٹریلیا نے 57 رنز سے اپنے نام کرکے پاکستانیوں کو کھل کر جشن منانے کا موقع فراہم کر دیا ساتھ ہی امید اور مایوسی کے بھنور میں پھنسے پاکستانی کرکٹر کی خوشی بھی دیدنی تھی۔
اس طرح پاکستان فائنل فور میں شامل ہوگیا اور پہلا سیمی فائنل ٹاپ ون نیوزی لینڈ اور ٹاپ فور پاکستان جب کہ دوسرا سیمی فائنل ٹاپ ٹو جنوبی افریقہ اور ٹاپ تھری انگلینڈ کے درمیان ہونا طے پا گیا۔
پہلا سیمی فائنل:
پہلا سیمی فائنل نیوزی لینڈ نے اپنے ہوم گراؤنڈ آکلینڈ پر کھیلا جہاں اسے کیویز سپورٹرز کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ نیوزی لینڈ پہلی جب کہ پاکستان مسلسل چوتھی بار سیمی فائنل کھیل رہا تھا۔ اپنے ہوم گراؤنڈ اور لیگ میچز کی کارکردگی نے کیویز کے حوصلے بلند کر رکھے تھے لیکن قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔
مارچ 21 کو پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں آکلینڈ کے میدان میں اتریں تو میزبان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور مقررہ 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 264 رنز بنائے۔
پاکستان نے ہدف کے تعاقب میں اپنی آدھی ٹیم جلد گنوا دی۔ ٹاپ آرڈر اور مڈل آرڈر بلے باز نہ چل سکے لیکن ایسے میں رات بھر بیمار رہنے والے مرد بحران بن کر میدان میں آئے اور نوجوان انضمام الحق نے تیز رفتار 60 رنز بنا کر پاکستان کو ناقابل یقین فتح دلا کر پہلی بار فائنل کھیلنے کا حقدار بنایا اور اپنے کپتان کی اس بات کو درست ثابت کر دیا جو انہوں نے ایونٹ میں ابتدائی میچز میں انضمام کی بیٹنگ ناکامی پر کہی تھی کہ یہ نوجوان بہت با صلاحیت ہے اور جس دن یہ چل گیا پاکستان کو ورلڈ کپ جیتنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
دوسرا سیمی فائنل:
دوسرا سیمی فائنل جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کے درمیان سڈنی کرکٹ گراؤنڈ پر کھیلا گیا جو اپنے متنازع بارش کے قانون کے باعث ہمیشہ ایک بری یاد بن کر شائقین کرکٹ بالخصوص جنوبی افریقہ کو زخمی کرتا رہے گا۔
اس میچ میں بارش نے کئی بار مداخلت کی اور میچ کو 45 اوورز کی اننگ تک محدود کر دیا گیا۔ انگلینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 6 وکٹوں کے نقصان پر 252 رنز بنائے تھے۔ ہدف کے تعاقب میں پہلی بار میگا ایونٹ کھیلنے والی جنوبی افریقہ کی کامیاب پیش قدمی جاری تھی اور کارکردگی کو دیکھتے ہوئے سب اس کی یقینی فتح کے منتظر تھے کہ اچانک وہ ہوا جس نے کایا پلٹ کر رکھ دی۔
253 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقہ 231 رنز بنا چکی تھی اور اسے فتح کے لیے آخری 13 گیندوں پر صرف 22 رنز درکار تھے جو کریز پر موجود بلے بازوں کو دیکھتے ہوئے ممکن لگتے تھے لیکن اس موقع پر بارش نے پھر میدان میں انٹری دی۔ کچھ دیر بعد جب بارش رکی تو اسکور بورڈ دیکھ کر شائقین کے ساتھ جنوبی افریقی ٹیم بھی حیران رہ گئی کہ بارش سے پہلے اسے 13 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے لیکن بارش رکنے کے بعد اسے صرف ایک گیند پر 22 رنز بنانے تھے جو کسی طور ممکن نہ تھے یوں جنوبی افریقہ یہ میچ ہار گیا لیکن اس کو یہ میچ انگلینڈ نے نہیں بلکہ آئی سی سی کے متنازع قانون نے ہرایا۔
متنازع بارش قانون اور چوکر کا لیبل:
اس میچ کے بعد جنوبی افریقہ پر چوکر کر ایسا لیبل لگا کہ وہ ہر بڑے ایونٹ کے حتمی مقابلوں تک تو پہنچتی رہی لیکن کبھی کسی ٹرافی کو ہاتھ میں نہ اٹھا سکی ہے۔
فائنل مقابلہ:
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ورلڈ کپ 1992 کا سب سے بڑا مقابلہ فائنل میچ تاریخی ملیبرن کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا گیا۔ انگلینڈ تیسری جب کہ پاکستان پہلی بار فائنل میچ کھیل رہے تھے۔ ٹاس پاکستان کے کپتان عمران خان نے جیتا اور دوسےپہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کے دونوں اوپنر فائنل مقابلے میں کوئی رنگ نہ جما سکے۔ عامر سہیل اور رمیز راجا 22 کے مجموعے پر ہی پویلین سدھار گئے۔ اس نازک مرحلے پر کپتان عمران خان بلند عزائم لیے غیر متوقع طور پر بیٹ سنبھالے تیسرے نمبر پر میدان میں آئے جب کہ ان کا ساتھ پورے ایونٹ میں مرد بحران کا کردار ادا کرنے والے جاوید میاں داد نے دیا۔ دونوں نے نپے تلے اور محتاط انداز میں بیٹنگ کی اور دھیرے دھیرے قومی ٹیم کا اسکور آگے بڑھایا۔
دونوں تجربہ کار کھلاڑیوں کی احتیاط کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی اننگ کی سنچری 31 ویں اوور میں ہوئی لیکن اس کے بعد عمران اور میاں داد نے اپنے ہاتھ کھولتے ہوئے انگلش بولرز کی درگت بنانا شروع کی۔ اس موقع پر میاں داد 58 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو پاکستان قدرے بہتر پوزیشن میں تھا اور پھر سیمی فائنل کے ہیرو انضمام الحق نے کریز پر آکر جارحانہ بیٹنگ سے رہی کسر پوری کر دی۔ کپتان عمران خان بھی جب 72 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے تو وسیم اکریم آئے اور دونوں نے مل کر اپنے بلوں سے ایسے رنز اگلے کہ پاکستان کا مجموعہ 50 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 249 رنز پر پہنچا دیا۔ انضمام الحق نے جہاں 35 گیندوں پر 42 رنز کی قابل قدر اننگ کھیلی وہیں وسیم اکرم نے صرف 18 رنز پر جارحانہ 33 رنز بنائے۔
انگلینڈ نے عالمی کپ جیتنے کا عزم لیے اپنی اننگ کا آغاز کیا تو صرف 69 رنز کے مجوعے پر اس کے 4 بہترین بلے باز جن میں گوچ (29)، ایان بوتھم (0)، سٹیورٹ (7) اور ہک (17) رنز بنا کر پویلین لوٹ چکے تھے اور انہیں یہ دھچکا وسیم اکرم اور عاقب جاوید نے پہنچایا۔ اس موقع پر فیئر بردار اور ایلن لیمپ شدید مزاحمت کے ساتھ میدان میں وارد ہوئے اور انگلینڈ کی امیدوں کا چراغ پھر سے روشن کر دیا۔
تاہم نوجوان وسیم اکرم کے آگے کسی بھی انگلش بلے باز کی ایک بھی نہ چلی اور پوری ٹیم ایک ایک کرکے ہمت ہارتی چلی گئی اور یوں 49.2 اوورز میں 227 رنز پر آؤٹ ہوکر یہ میچ 22 رنز سے ہار گئی۔ وسیم اکرم نے3،مشتاق نے3 ،عاقب نے 2 اور عمران نے ایک وکٹ حاصل کی۔ وسیم آل راؤنڈ کارکردگی کے باعث فائنل میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔
ورلڈ کپ کا یہ فائنل پاکستان نے جارحانہ انداز سے جیتا ، پاکستان کی اس فتح کے ساتھ ورلڈ کپ کی دو روایات بھی برقرار رہیں ایک یہ کہ ورلڈ کپ فائنل میں پہلے کھیلنے والی ٹیم کے فاتح بننے کی اور دوسرا یہ کہ میزبان ملک کے عالمی کپ نہ جیتنے کی۔
ایونٹ کے کچھ نا قابل یقین اور دلچسپ واقعات:
لیگ میچ کی سب سے کامیاب ترین ٹیم فائنل میں رسائی حاصل نہ کر سکی۔ اس کا دونوں بار راستہ روکنے والی واحد ٹیم اس ایونٹ کی چیمپئن پاکستان تھی جس نے پہلے لیگ میچ میں نا قابل شکست کو شکست دی پھر سیمی فائنل میں ہرا کر باہر ہی کر دیا۔
انگلینڈ کی ٹیم نے پورے ٹورنامنٹ میں دلکش پرفارمنس دی۔ ورلڈ کپ میں لگاتار دوسری اور مجموعی طورپر تیسری بار فائنل میں پہنچنے کے باوجود بھی چیمپئن نہ بن سکی۔
بارش نے پاکستان کو یقینی شکست سے بچایا پاکستان 74 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی انگلینڈ ایک وکٹ پر 24 رنز بنا سکی تھی کہ بارش نے میدان میں انٹری دی اور پھر میچ بے نتیجے بنانے کے بعد ہی ختم ہوئی۔
اس ایونٹ کے فائنل میچ میں جاوید میاں داد نے اپنی اننگ کے دوران عالمی کپ میں اپنے 1000 رنز مکمل کر لیے اس کے ساتھ ہی وہ اسی میچ میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں 500 رنز بنانے کا اعزاز پانے والے بلے باز بھی بنے۔
جاوید میانداد کی کریز پر اچھل کود اور کرن مورے کی کھسیانی ہنسی:
روایتی حریف پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ورلڈ کپ جیسے میگا ایونٹ میں پہلی بار مدمقابل آئیں اور اس کے بعد سے آج تک کوئی میگا ایونٹ ان دونوں ٹیموں کے باہمی میچ کے بغیر نہیں کھیلا گیا پاک بھارت ٹاکرا آج کسی بھی ایونٹ کا سب سے بڑا مقابلہ گردانا جاتا ہے۔
ورلڈ کپ 92 کے اولین پاک بھارت میچ میں جیت تو بھارت کو ملی لیکن سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں ہونے والا یہ میچ ایک دلچسپ منظر کے باعث شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں تازہ رہتا ہے اور وہ منظر پاکستانی بلے باز جاوید میانداد کا کریز پر بے ساختہ اچھلنا تھا۔ دراصل میاں داد وکٹ پر موجود تھے اور عقب میں بھارتی وکٹ کیپر ان کا ردھم توڑنے کے لیے بار ان کے آؤٹ ہونے کی غیر ضروری اپیل کر رہے تھے جس سے تنگ آکر انہوں نے کرن مورے کے سامنے کریز پر ہی اچھل کود شروع کر دی جس کو کیمرے کی آنکھوں نے فوری محفوظ کر لیا۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم نے پہلی مرتبہ ورلڈ کپ میں شرکت کی اور پہلی ہی میگا ایونٹ میں شاندار کارکردگی دکھانے کے باوجود بھی وہ انتہائی متنازع ڈک ورتھ لوئس کے متنازع قانون کا شکار ہو کر نا قابل یقین طور پر سیمی فائنل ہار گئی لیکن اسے کرکٹ نے شکست نہیں دی بارش کا متنازع قانون اس کی شکست کی بڑی وجہ بنا۔
ایونٹ کی سب سے نچلی ٹیم پاکستان ڈوبنے کے بعد یوں ابھری کہ پھر سب کو پچھاڑتی ہوئی فاتح بن کر کرکٹ کی بے تاج بادشاہ بن گئی۔
1992 ورلڈ کپ کی کچھ خاص خاص باتیں:
یہ پانچواں ورلڈ کپ تھا اور اب تک کھیلے گئے تمام ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ دلکشی اور سنسی خیزی دیکھنے کو ملی۔ خاص طور پر رنگین کٹ ،سفید گیند اور سیاہ سائٹ اسکرین نے شائقین کے دل موہ لیے۔ ورلڈ کپ میں ڈے اینڈ نائٹ میچ کرانے کا سہرا بھی آسٹریلیا کو جاتا ہے ، جس نے برقی قمقموں کی روشنی میں میچز کروانے کی ریت ڈالی، مجموعی طورپر یہ ٹورنامنٹ بے حد کامیاب ثابت ہوا ، ان میچز کی ٹی وی کوریج وسیع پیمانے پر ہوئی، دنیا میں کرکٹ کھیلنے والے سب ہی ممالک میں ان میچز کو دکھانے کے انتظامات کیے گئے۔ فائنل میچ میں شائقین کی تعداد 8 لاکھ 70 ہزار 182 تھی جو کہ ایک ریکارڈ ہے، یہ میچ 29 ممالک میں براہ راست دکھایا گیا ، آج تک کسی میچ کو اتنی کوریج نہ ملی ، اس ورلڈ کپ کے لیے جو قوانین ترتیب دیے گئے اس کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، خاص طور پر بارش کا قانون اس ٹورنامنٹ کا سب سے متنازع قانون تھا۔
ورلڈ کپ 1992 کے بیٹنگ، بولنگ ریکارڈز اور اپ سیٹ میچز:
پانچویں ورلڈ کپ میں 39 میچوں میں 3412.1 اوورز میں 514وکٹوں کے نقصان پر 15107 رنز بنائے گئے ، پہلی سنچری مارٹن کرونے آسٹریلیا کے خلاف بنائی ، پہلی نصف سنچری ردر فورڈ نے آسٹریلیا کے خلاف اسکور کی، بہترین انفرادی اننگز کا اعزاز رمیز راجا کو 119 ناٹ رنز کے ساتھ نیوزی لینڈ کے خلاف حاصل ہوا۔ بہترین انفرادی بائولنگ جنوبی افریقہ کے پرنگل نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 4/11کے ساتھ دکھائی۔ کیپل ویسلز 7 کیچز کے ساتھ فیلڈرز میں اور جنوبی افریقہ کے ڈیوڈ رچرڈسن 15شکار کے ساتھ وکٹ کپیننگ میں آگے رہے ،نیوزی لینڈ کے مارٹن کرو 456 رنز کے ساتھ بلے بازوں میں اور پاکستان کے وسیم اکرم 18 وکٹوں کے ساتھ باؤلرز میں نمایاں رہے ، ٹورنامنٹ میں 8 سنچریاں اور 84 نصف سنچریاں بنیں۔ ڈیوڈ بون اور رمیز 2،2 سنچریاں کرکے آگے رہے ، جب کہ 5 نصف سنچریوں کے ساتھ جاوید میاں داد چھائے رہے ، مارٹن کرو ٹورنامنٹ کا بہترین پلیئر قرار دیا گیا ، 23فروری کو سری لنکا اور زمبابوے کا میچ اس اعتبار سے اہمیت اختیار کرگیا کہ زمبابوے نے 312 رنز کے بنائے۔ سری لنکا نے دوسری اننگز میں یہ ریکارڈ سکور عبور کرکے ورلڈ کپ کی نئی تاریخ رقم کی۔ یکم مارچ کو آسٹریلیا نے ایک بارپھر بھارت کو محض 1 رنز سے شکست دی اور تیسرے میچ میں پہلی فتح حاصل کی ، بھارت یہ میچ اپنی غلطیوں سے ہارا۔ 18 مارچ کو ویلنگٹن میں زمبابوے نے ٹورنامنٹ کی بہترین ٹیم انگلینڈ کو 9 رنز سے ہراکر اپ سیٹ فتح حاصل کی، زمبابوے کے 134 رنز انگلینڈ پر بھاری پڑ گئے۔
حرف آخر: ورلڈ کپ 1992 میں پاکستان وہ ڈوبتا ہوا مسافر تھا جس کو آخری لیگ میچ آسٹریلیا نے جیت کر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مترادف اپنے پیروں پر کھڑا وہ نئی زندگی بخشی جس کا بام عروج دنیا نے 25 مارچ کو دیکھا۔ پاکستان عالمی چیمپئن بن گیا تو شائقین اور قومی کھلاڑی ورلڈ کپ 87 کی شکست کا غم بھول گئی، پوری پاکستانی عوام جھوم اٹھی اور دنیائے کرکٹ کے افق پر ایک نئے ملک کو عالمی چیمپئن کا جھنڈا
لہراتے اور کپتان عمران خان کو خوبصورت کرسٹل بینسن اینڈ ہیجز ٹرافی اٹھاتے دیکھا۔
ٹیم کے نوجوان کھلاڑی اپنے خواب کی تعبیر پانے پر اتنے خوش اور پُر جوش تھے کہ اپنے آئیڈل کھلاڑی اور مایوس ٹیم میں جیت کے جذبے کی روح پھونکنے والے قائد عمران خان کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر میدان کا چکر لگایا اور شائقین کرکٹ سے داد وتحسین وصول کی۔
اس مضمون کے لیے عمران عثمانی کی کتاب ’’ورلڈ کپ کہانی‘‘ سے بھی مدد لی گئی ہے۔