پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے اداکار آغا طالش کو دنیا سے کوچ کیےانیس برس بیت گئے مگر مداح آج بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔
پاکستان فلم انڈسٹری میں اکیڈمی کا درجہ رکھنے والے اداکار کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا اور وہ 10 نومبر 1927 کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔
طالش نے1945 میں کرشن چندر کی تحریر کردہ کہانی پر فلم’سرائے کے باہر‘سےاپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔تاہم ان کی یہ فلم ذیادہ کامیاب نہ ہوئی۔
قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک ہوئے اور پھر فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔انہوں نے1952 میں فلم’نتھ‘میں اداکاری کی تاہم انہیں اصل شہرت فلم’سات لاکھ‘سے ملی۔
آغا طالش کی زندگی میں ہدایت کار ریاض شاہد نےاہم کردار ادا کیا اور 1962 میں فلم ’شہید‘ نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔
لیجنڈ اداکار کی دیگر فلموں میں باغی، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، کنیز، لاکھوں میں ایک، زینت، امراﺅ جان ادا اور آخری مجرا کے نام سرفہرست ہیں۔
آغاطالش نے اپنے فلمی کیریئر میں 500 سے زائد فلموں میں کام کیا۔انہوں نے درجنوں ایوارڈز کے علاوہ حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ تمغہ حسن کارکردگی بھی حاصل کیا۔
آغا طالش کے بیٹے احسن طالش بھی اپنے والد کی طرح اس شعبے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اب تک کئی پاکستانی ڈرامے بنا ئےہیں جن میں وہ بطور اداکار، پروڈیوسر اور ڈائریکٹرکام کرچکے ہیں۔
احسن طالش کے کامیاب ڈراموں میں راکھ، اعتراف، محبت کرنے والوں کے نام، دل کو منانا آیا نہیں، کوئی تو بارش اور نم سمیت دیگر شامل ہیں۔
پاکستانی فلم انڈسٹری میں 5 دہائیوں تک فن کا لوہا منوانے والے لیجنڈ اداکارآغا طالش 19 فروری 1998 کوانتقال کرگئےلیکن آج بھی وہ اپنی اداکاری کے باعث لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔