اشتہار

بھارت کی چار اعلیٰ‌ شخصیات کیلئے 3ہزار سے زائد کمانڈوز تعینات

اشتہار

حیرت انگیز

نئی دہلی : رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بھارت میں ایک لاکھ آبادی پر صرف 137 پولیس اہلکار ، پولیس کی 22فیصد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق بھارت میں صرف چار اہم افراد کی حفاظت کے لئے اسپیشل پروٹیکشن گروپ (ایس پی جی) کے تین ہزار سے زائد کمانڈوز تعینات ہیں،ان چارافراد میں وزیر اعظم نریندر مودی، اپوزیشن کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور ان کے دو اولادیں راہول گاندھی اورپرینکا گاندھی واڈرا شامل ہیں۔

میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت وہ ملک ہے جہاں ایک لاکھ آبادی پر صرف 137 پولیس اہلکار ہیں جب کہ پولیس کی بائیس فیصد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔

- Advertisement -

بھارتی ٹی وی کے مطابق سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو بھی ایس پی جی کی سیکورٹی حاصل تھی لیکن مودی حکومت نے دوروزقبل یہ نفری واپس لے لی ہے البتہ انہیں نسبتاً کم درجے کی سیکورٹی ملتی رہے گی، ڈاکٹر من موہن سنگھ2004سے2014 تک بھارت کے وزیراعظم رہے۔

کانگریس پارٹی نے حکومت کے اس فیصلے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ بھی ایک دن سابق ہوں گے۔

بھارتی حکام کا کہنا تھاکہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی ایس جی پی سیکورٹی واپس لینے کا فیصلہ مختلف سیکورٹی ایجنسیوں کی جائزہ رپورٹ کے بعد کیا گیا، قابل ذکر ہے کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہار ی واجپئی کو برسوں کی علالت سے وفات تک ایس پی جی سیکورٹی حاصل رہی۔

واضح رہے کہ اسپیشل پروٹیکشن گروپ کا قیام سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد1985میں عمل میں آیا۔

ایس جی پی صرف وزیر اعظم، سابق وزیر اعظم اور ان کے اہل و عیال کو سیکورٹی فراہم کرتا ہے، ایس پی جی کے کمانڈوز کا انتخاب نیم فوجی دستے بارڈر سکیورٹی فورس، سنٹرل انڈسٹریل سیکورٹی فورس، اِنڈو تبتن بارڈر پولیس اور سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے جوانوں میں سے کیا جاتا ہے۔

انہیں امریکی خفیہ سروس کے ایجنٹوں کی طرز پر تربیت دی جاتی ہے، یہ کمانڈوزانتہائی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں لیکن ان کا کام حملہ کرنے کے بجائے دفاع کرنا ہوتا ہے، ایس پی جی کو کافی اختیارات حاصل ہیں۔

ایس پی جی قانون کے مطابق ریاستی حکومتیں اسے ہر طرح کا تعاون فراہم کرنے کی پابند ہیں۔ وہ اپنے کمانڈوز کو کسی بھی جگہ تعینات کرنے کے لیے بھارتی فضائیہ کے طیارے یا ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرسکتی ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں