بجٹ وہ مالی منصوبہ بندی ہے جسے حکومت ٹیکس کی مد میں حاصل رقوم اور حکومتی اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک سال کے لیے مرتب کرتی ہے۔
پاکستان میں حکومتی بجٹ وفاقی وزیر خزانہ ہر سال جون میں پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہیں جس پر اراکین اسمبلی بھی تجاویز پیش کرتے ہیں اور بعد ازاں اسے اسمبلی سے منظور کرایا جاتا ہے۔
بجٹ تین طرح کے ہوتے ہیں
1-یونین بجٹ
وہ بجٹ جو پورے ملک کے لیے ہو اور وفاقی یا مرکزی حکومت اسے پیش کرے یونین بجٹ کہلاتا ہے تاہم ایسے ممالک میں صوبائی بجٹ نہیں ہوتے۔
2-ریاستی یا صوبائی بجٹ
کئی ممالک مختلف ریاستوں پر مشتمل ہوتے ہیں ایسے ممالک میں ہر ریاست اپنا علیحدہ بجٹ پیش کرنے کا حق رکھتی ہے ایسے بجٹ کو ریاستی بجٹ کہا جاتا ہے۔
3-پروجیکٹ اور ضمنی بجٹ
اس قسم کے بجٹ کسی خاص پروجیکٹ یا منصوبے کے لیے بنائے جاتے ہیں اس میں اندورنی سے زیادہ بیرونی ذارئع آمدن پر انحصار کیا جاتا ہے
بجٹ کے بنیادی عناصر
بجٹ کے بنیادی عناصر محصولات اور حکومتی اخراجات ہیں اور انہی دونوں کے اعداد و شمار کو مد نظررکھ کربجٹ ترتیب دیا جاتا ہے لہذا بے حد ضروری ہے کہ محصولات اور اخراجات کے درست اعداد و شمار دستیاب ہوں۔
حکومت اپنے اخراجات اور ترقیاتی منصوبے محصولات اور زرمبادلہ سے حاصل رقم سے پورا کرتی ہے اور اگر محصولات اور حکومتی آمدنی اخراجات سے کم ہوں تو کارِ مملکت چلانے کے لیے قرضہ لیا جاتا ہے
ٹیکس ، زر مبادلہ اور دیگر ذرائع آمدنی سے حاصل ہونے والی رقم سے حکومتی اخراجات اور ترقیاتی پروجیکٹس مکمل کیے جاتے ہیں اس لیے ان دونوں عناصر کی بنیاد پر بجٹ کی تین اقسام سامنے آتی ہیں
بجٹ کی اقسام
متوازن بجٹ
اگر محصولات سے حاصل رقوم اور اخراجات برابر ہوں تو ایسے بجٹ کو متوازن کہا جاتا ہے یعنی جتنی رقم ریاست کو ٹیکسوں کی صورت میں ملی اتنی ہی اخراجات اور دیگر میں خرچ ہوجاتی ہیں اورملک کو چلانے کے لیے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔
خسارے کا بجٹ
اگرریاست اپنی آمدنی سے اخراجات مکمل نہ کر پائے تو ایسے میں پیش کیا گیا بجٹ خسارے کا بجٹ کہلاتا ہے جس میں ملک کے معمولات چلانے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے یا ٹیکس کی شرح بڑھائی جاتی ہے اور یا پھرغیرترقیاتی بجٹ پرقابو پایا جاتا ہے۔
سرپلس بجٹ
ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جب حکومت کی آمدنی اخراجات سے زیادہ ہو جائے تو ایسی نادر ونایاب صورت حال میں پیش کیے گئے بجٹ کو سرپلس بجٹ کہا جاتا ہے تاہم ایسی صورت حال خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
حکومتی آمدن کے ذرائع
حکومت کی آمدنی کاسب سے بڑا ذریعہ ٹیکس ہے جس کے لیے حکومت اپنی عوام کو مختلف سہولیات فراہم کرتی ہیں اور اس پر ٹیکس کی کٹوتی کی جاتی ہے جب کہ زرمبادلہ بھی ریونیو میں اپنا حصہ ڈالتا ہے
ٹیکس کی اقسام
حکومت اپنا ریونیو بڑھانے کے لیے مختلف قسم کے ٹیکس لاگو کرتی ہے جو کہ درج ذیل ہیں
کیپیٹل ٹیکس
یہ ٹیکس عمومی طور پر سرمایہ پر لگایا جاتا ہے جیسے اسٹاک ایکسچینج، بانڈز، قیمتی و نادر اشیاء کی خرید و فروخت اور بلاواسطہ پراپرٹی پر بھی عائد ہوتا ہے.
کارپوریٹ ٹیکس
یہ ٹیکس کسی فرد پر نہیں بلکہ کسی کمپنی، گروپ یا ادارے پر عائد کیا جاتا ہے جو کمپنی کے مجموعی منافع پر عائد ہوتا ہے
آمدنی ٹیکس
یہ ٹیکس کسی فرد کی سالانہ آمدنی پر عائد کیا جاتا ہے جو عمومی طور پر تنخواہ دار طبقے یا چھوٹے کاروباری حضرات سے لیا جاتا ہے اور اس ٹیکس کا نفاذ مخصوص آمدنی پر ہوتا ہے اس سے کم آمدنی رکھنے والے مستثنیٰ ہوتے ہیں
ٹیرف ٹیکس
یہ بھی ٹیکس ہی کی ایک صورت ہے جو بین الاقوامی تجارت کرنے والوں سے لیا جاتا ہے تاہم اسے ٹیرف کا نام دیا جاتا ہے جو کہ حکومتی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے
جنرل سیلز ٹیکس
روزمرہ زندگی کے استعمال میں آنے والی اشیاء پر جنرل ٹیکس عائد کیا جاتا ہے تاہم کمپنیاں یہ ٹیکس صارف سے وصول کرتے ہیں جس کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا ہے
ٹول ٹیکس
یہ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے استعمال ہونے والی قومی شاہراہ پر وصول کیا جاتا ہے عام شہریوں کی بہ نسبت تجاری اشیاء لے جانے والے ذرائع نقل وحمل پر زیادہ ٹیکس عائد ہوتا ہے
سرچارج
کبھی کبھی حکومت کسی چیز میں پہلے سے عائد دیگر ٹیکس کے باوجود ایک نیا ٹیکس بھی شامل کر دیتی ہے اسے سرچارج ٹیکس کہا جاتا ہے یہ عمومی طور پر اس صورت میں لگایا جاتا ہے جب حکومت کو شدید خسارے کا سامنا ہو
ویلیو ایڈٹ ٹیکس
پر تعیش اشیاء یا خدمات پر لگائے جانے والا ٹیکس ویلیو ایڈ ٹیکس کہلاتا ہے یعنی اضافہ شدہ مالیت پر مبنی محصول جو اس مقصد سے لگایا جاتا ہے کہ اس کا بار بالآخر صارفین کو برداشت کرنا پڑے۔
بجٹ بناتے ہوئے ان چیزوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے
یقینی طور پرپہلی ترجیح درست اعداد و شمار کی دستیابی ہے جس کے ایک علیحدہ ادارہ شماریات قائم ہے جو حکومت کی معاونت کرتا ہے جب کہ نادرا کے ریکارڈ سے بھی مدد لی جاتی ہے تاکہ درست تخمینہ لگایا جا سکے۔
افراط زر (Inflation) زری معاشیات کی اہم اصطلاح ہے۔ تعریف کے مطابق کسی معیشت میں موجود اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شرح کو افراط زر کہتے ہیں۔ افراط زر میں مسلسل اضافہ کا رجحان مہنگائی کی صورت میں سامنے آتا ہے تاہم ہر معیشت میں کم و بیش افراط زر کی موجودگی قدرتی امر ہے۔ یہ اوسطاً 5 سے 6 فیصد سالانہ رہتا ہے تاہم دیوالیہ معیشتوں میں افراط زر ہزار فیصد سے بھی تجاوز کر سکتا ہے اسے معقول حدود میں رکھنا مرکزی بینک کا بنیادی وظیفہ ہے۔
جی ڈی پی
جی ڈی پی دراصل گروس ڈومیسٹک پراڈکٹس کا مخفف ہے جس سے ملک میں تیار کردہ اشیاء اور خدمات کے عوض ایک معین مدت میں حاصل ہونے والی آمدنی کا پتا لگایا جاتا ہے جو کہ پاکستان میں نہایت کم ہے جس کے باعث پاکستان کا نمبر 140 واں ہے
سبسڈی
کئی ادارے اور شعبے زبوں حالی کا شکار ہوتے ہیں جنہیں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے حکومت کچھ امدادی رقم مختص کرتی ہے اسے سبسڈی کہا جاتا ہے
سرکلر ڈیٹ
رقم یا خدمات ایک سائیکل کے ذریعے ایک شعبے سے دوسرے شعبے یا ایک صارف سے دوسرے صارف تک پہنچتی ہے یہ گردشی رقم یا خدمات سائیکل کو پورا کرتے ہوئے اپنے پہلے مقام یعنی حکومت تک نہ پہنچ پائے تو اسے سرکلر ڈیٹ یا گردشی قرضے کہا جاتا ہے یہ وہ رقم ہوتی ہے جو نظام کا حصہ تو ہوتی ہے لیکن حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہوتی
بجٹ 2017-18
کل اگلے مالی سال کے لیے بجٹ پیش کیا جا رہا ہے جو اس حکومت کا آخری بجٹ ہوگا جس کے باعث عوام کا گمان ہے کہ حکومت ٹیکسوں کی شرح میں کمی ، مہنگائی پر قابو پانے اور تنخواہوں میں اضافہ کرے گی تاکہ بھوک پیاس اور بجلی کو ترستی عوام کو کچھ ریلیف مل سکے