اسلام آباد: پولیس اور مجسٹریٹ کی مبینہ ملی بھگت سے اسلام آباد میں ایک مساج سینٹر پر جعلی صحافیوں کے غیر قانونی چھاپے کا انکشاف ہوا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس پر پولیس اور انتظامیہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
تفصیلات کے مطابق آج پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک مساج سینٹر پر جعلی صحافیوں کے چھاپے اور رقم بٹورنے کے خلاف مقدمہ اندراج کی درخواست پر سماعت ہوئی، ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے شہری شاہ فیصل کی درخواست پر سماعت کی۔
ہائیکورٹ نے تمام ذمہ داروں کیخلاف پرچہ درج کرنے کا حکم دے دیا، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس میں کہا کہ اسلام آباد کو درہ آدم خیل نہ بنائیں، غیر قانونی چھاپے میں مجسٹریٹ ملوث تھے توان کے خلاف بھی کارروئی کی جائے۔
عدالت نے کہا کہ اگر پولیس نے شفاف تحقیقات نہ کیں تو کیس ایف آئی اے اور آئی ایس آئی یا نیب کو دے دیں گے، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کر کے دس دن میں رپورٹ پیش کی جائے۔
درخواست گزار نے عدالت سے کہا تھا کہ پرائیویٹ میڈیا پرسنز نے چھاپا مار کر 5 لاکھ 75 ہزار روپے وصول کیے، چھاپا مار ٹیم کے ہمراہ پولیس اہل کار یا مجسٹریٹ موجود نہیں تھے، تاہم واقعے کی شکایت پر پولیس مقدمہ درج نہیں کر رہی ہے، بلکہ رقم واپسی کے تقاضے پر واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ فوٹیج کے مطابق پرائیویٹ افراد نے چھاپا مارا، دروازوں پر دستک دے کر لوگوں کو باہر نکالا گیا اور مار پیٹ کی گئی۔
عدالتی ریمارکس کے مطابق ان افراد نے وائرلیس تھام رکھے تھے اور کاؤنٹرز سے رقم بھی وصول کی، عدالت نے ڈی آئی جی آپریشنز کو انکوائری کر کے ذمہ داران کے تعین کا حکم دیا۔