وزیراعظم آزاد کشمیر کا انتخاب آج ہونا ہے تحریک انصاف اور اپوزیشن گروپ کے پاس 26 چھبیس ووٹ ہیں اس صورت میں مسلم کانفرنس کا واحد ووٹ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق عدالت کی جانب سے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کو نا اہل قرار دیے جانے کے بعد نئے وزیراعظم کا آج انتخاب ہونے جا رہا ہے اور وہاں اس حوالے سے کافی دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
آزاد کمشیر کے 52 رکنی ایوان میں وزیراعظم بننے کے لیے سادہ اکثریت 27 ووٹ چاہیے ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک نے اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کے بعد اپوزیشن اور بیرسٹر گروپ کے اتحاد کی صورت میں انہیں 26 ووٹ ملنے کا امکان ہے جب کہ تحریک انصاف کے پاس بھی 26 ارکان موجود ہیں۔
اس صورتحال میں صرف ایک ووٹ بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے اور وہ ہے مسلم کانفرنس کا اس اسمبلی میں واحد رکن اور سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد کا۔ ان کا ووٹ جس کو بھی ملا وزیراعظم کی کرسی پر اس کا نمائندہ ہی براجمان ہوسکتا ہے یعنی جو یہ ووٹ توڑنے میں کامیاب رہا وہ بازی اپنے حق میں پلٹنے میں کامیاب رہے گا۔
بیرسٹر سلطان گروپ کے 6 اراکین جس کی حمایت کریں گے وہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن کے چوہدری یاسین، چوہدری لطیف، فیصل ممتاز وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہیں جب کہ بیرسٹر سلطان محمود گروپ نے وزارت عظمیٰ کے لیے چوہدری اخلاق اور چوہدری رشید کے نام بھی دے دیے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم کے انتخاب سے متعلق تحریک انصاف آزاد کشمیر کا طویل اجلاس ہوا جس میں اس حوالے سے حکمت عملی تشکیل دی گئی۔
آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا اجلاس مسلسل دو روز ملتوی ہونے سے قائد ایوان کا انتخاب نہیں کیا جا سکا جب کہ آرٹیکل 17 اور اسمبلی کے قاعدہ 16 کے تحت جاری اجلاس میں وزیراعظم کا فوری انتخاب ضروری ہے۔
وزیراعظم کے انتخاب کے لیے آج آزاد کشمیراسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں قائدایوان کا انتخاب متوقع ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کیخلاف توہین عدالت درخواست پر ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی جس کے بعد ہائیکورٹ کے فل کورٹ نے انہیں سزا دیتے ہوئے نا اہل کر دیا تھا۔
وزیراعظم آزاد کشمیر نے عدالت سے معافی کی درخواست بھی کی تھی جسے عدالت نے قبول نہ کرتے ہوئے نا اہل کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
عدالت نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو عدالت برخاست ہونے تک سزا سنائی اور انہیں کسی بھی پبلک عہدے کے لیے نا اہل قرار دیا۔