کارخانوں، شاہ راہوں، کھیتوں، گھروں میں کسی بھی کام کے لیے سخت محنت اور مشقت کے عوض یومیہ بنیادوں پر اجرت یا ماہ وار معاوضہ پانے والی عورتیں محنت کش جب کہ مختلف دفاتر اور اداروں میں کام کرنے والی ملازمت پیشہ کہلاتی ہیں۔ نام اور مقامِ کار بدلنے سے اِن خواتین کے نہ تو مسائل کم ہوتے ہیں اور نہ ہی اُنھیں ان کے حقوق ملتے ہیں۔ ہاں ہر سال یومِ مئی اور یومِ خواتین مناتے ہوئے ان کے لیے چند ستائشی الفاظ ضرور ادا کیے جاتے ہیں اور اِن ایّام کا سورج غروب ہوتے ہی اپنا مفہوم بدل لیتے ہیں۔
حقوقِ نسواں کے لیے منعقدہ سیمیناروں اور کانفرنسوں میں پڑھے جانے والے مقالوں اور تقاریر میں جو ڈھول پیٹے جاتے ہیں اُن کا پول کھلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ کیونکہ محنت کش خواتین کے مسائل اور حقوق کی بازگشت سنی ضرور جاتی ہے مگر وہ صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔
دیکھا جائے تو محنت کش عورتوں کا طبقہ پاکستان میں سب سے زیادہ مظلوم ہے۔ اسلام میں خواتین کو کسبِ معاش کی اجازت ہے۔ حضرت خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تجارت کے پیشے سے وابستہ تھیں۔ عہدِ نبوی میں کئی خواتین اُجرت پر کام کرتی تھیں اور انھیں اپنے معاشرے میں عزّت و احترام حاصل تھا۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ اسلامی مملکت اور اسلامی معاشرے میں محنت کش خواتین کی اکثریت ذلّت، ناداری اور بلا مبالغہ کس مپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یہ عورتیں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے اور مطالبات اربابِ اختیار تک پہنچانے سے بھی اس لیے رہ جاتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ اوّل تو ان کی شنوائی نہیں ہوگی اور دوسری طرف یہ خوف بھی دامن گیر رہتا ہے کہ حق کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں انھیں روزگار سے محروم کیا جاسکتا ہے اور یوں وہ اپنی رہی سہی کمائی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ سو بے شمار مسائل میں گھری ایسی عورتیں اپنی مجبوری کا سودا کر کے حالات سے سمجھوتا کر لیتی ہیں۔
یہ المیہ ہی ہے کہ برسرِ روزگار ہونے کے باوجود محنت کش خواتین خود مختار نہیں ہوتیں۔ بعض تو ایسی بے بس ہوتی ہیں کہ دن رات مشقت کی چکی میں پس کر اپنی ہڈیاں گھلانے کے بعد گھر میں ایندھن جلاتی ہیں اور بچوں کی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے نکھٹو اور نشّے کے عادی شوہر یا باپ اور بھائی کی طلب پوری کرنے کے لیے اُنھیں اپنی کمائی میں سے حصہ بھی دیتی ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں انھیں تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ سمجھوتا کرنے والی یہ عورتیں زندگی کا زہر امرت سمجھ کر پی لیتی ہیں۔ جو اِن حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتیں وہ اس ماحول سے فرار حاصل کرنے کے لیے نشے میں پناہ ڈھونڈ لیتی ہیں اور یوں اپنے مسائل میں کئی گنا اضافہ کر لیتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سخت محنت اور مشقت کے بعد جب ان کے ساتھ گھر کے لوگوں کا رویّہ اور حالات کچھ بھی نہ بدلے تو مجبور اور بے بس عورتیں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہیں۔
قانون کے تحت بارہ سال سے کم عمر بچّوں سے مشقت کروانے پر پابندی ہے لیکن اس سے کم عمر بچّیاں بھی مختلف کارخانوں، ملوں، شاہراہوں، دیہات میں اپنی ماؤں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ یہی نہیں گھر گھر جا کر کام کرنے والی اپنی ماؤں کے ساتھ بطور چھوٹی اپنی عمر، طاقت اور ہمت سے بڑھ کر کام کرتی ہیں۔ یوں والدین کی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھنے والی یہ کمسن بچیاں محنت کش بچّوں کی صف میں شامل ہو جاتی ہیں۔ بعض نادار والدین اپنا قرضہ چکانے کے لیے اپنی نو عمر بیٹیوں کو گروی رکھوا دیتے ہیں اور معصوم بچیاں گھر میں مستقل ملازمہ کی حیثیت سے غیر انسانی سلوک کا نشانہ بن کر جی جی کر مرتی اور مر مر کر جیتی ہیں۔ اُن کا پھول سا بچپن مشقت کی دھوپ میں جھلس کر راکھ ہو جاتا ہے۔ وہ کم سن بچیاں بھی ہیں جو اپنے گھروں میں اپنی ماؤں کے ساتھ بچّوں کے کھلونے اور گڑیاں بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ یہ بچیاں اپنا فرض سمجھ کر کھلونے اور گڑیاں بناتی ہیں لیکن ان پر ان کا کوئی حق نہیں ہوتا۔یہ بچیاں اپنی بنائی ہوئی گڑیوں کو حسرت سے تک تو سکتی ہیں لیکن ان سے کھیل نہیں سکتیں۔
فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین عموماً یومیہ اُجرت پر کام کرتی ہیں جو اُن کی محنت اور کمائی کے لحاظ سے انتہائی ناکافی اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ عموماً دن بھر کی مشقت کی اُجرت سو سے ڈھائی سو روپے تک ہوتی ہے۔زیادہ محنت اور کم اُجرت کا صبر جھیلنا تو گویا محنت کش خواتین کا مقدر ہے اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ جان توڑ محنت کرنے والی خواتین کے فرائض ریکارڈ میں کم درج کیے جاتے ہیں، جب کہ ایمرجنسی کی صورت میں بھی عموماً ان محنت کش خواتین کو چھٹیاں نہیں ملتیں۔ لیبر لاء کے مطابق محنت کش خواتین کے اوقاتِ کار کھانے کے وقفے سمیت 9 گھنٹے مقرر ہیں مگر گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین سولہ سترہ گھنٹے بھی کام کر لیتی ہیں کیوں کہ گارمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین زیادہ تر پیس ورک کرتی ہیں جس میں فی پیس رقم مقرر ہوتی ہے سو زیادہ سے زیادہ پیس تیار کرنے اور کمانے کی دھن میں خواتین مقررہ وقت سے کئی گھنٹے زیادہ کام کرتی ہیں۔ یہ مستقل ملازم نہیں ہوتیں بلکہ انھیں کارخانے میں عام طور پر یومیہ اجرت پر یا ٹھیکے دار کے ذریعے کام پر رکھا جاتا ہے اور یوں وہ کام کی جگہ پر اپنے ہر حق سے محروم رہتی ہیں جب انھیں علاج کی سہولت بھی نہیں دی جاتی۔ حالانکہ صنعتی اداروں میں کام کرنے والی ہزاروں محنت کش خواتین کی تیار کردہ مصنوعات بر آمد کر کے ان سے ہزاروں، لاکھوں نہیں کروڑوں کی کمائی ہو رہی ہے، لیکن ان کو مردوں کے مقابلے میں بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔ بروقت کام پر پہنچنا تو اُن پر لازم ہے مگریہ قطعاً ضروری نہیں کہ مقررہ وقت پر کام ختم کر کے وہ اپنے گھر جائیں۔ انھیں ذہنی اور جسمانی اذیت بھی جھیلنی پڑتی ہے۔ سیمنٹ کی خالی بوریوں کو صاف کر کے ان کو سیدھا کرنے کا کام کرنے والی محنت کش خواتین کو اس کام کا خاطرخواہ معاوضہ تو نہیں ملتا لیکن سانس اور جلد کی بیماریاں ضرور مل جاتی ہیں۔سیمنٹ کے ذرات سے پھیپڑے اور ہاتھوں کی جلد متاثر ہوتی ہے۔ مسلسل مشین چلانے، جسمانی کمزوری، تواتر سے بارہ گھنٹے سے زائد مشقت کرنے اور آرام نہ ملنے کے سبب تھکن کی وجہ سے مسلسل بخار اور اس کے نتیجے میں پھیپڑے متاثر ہوجاتے ہیں۔ لیکن انھیں علاج کی سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ فیکٹری میں مشینوں کے شور سے کانوں کے پردے پھٹ جاتے ہیں۔ اگر دورانِ کام محنت کش خواتین زخمی یا معذور ہو جائیں یا اور کسی حاثے کا شکار ہو جائیں تو اس صورت میں انھیں ملازمت سے برطرف کردیا جاتا ہے۔
پاکستان کے مختلف صوبوں اور بالخصوص دیہی علاقوں میں عمارتوں کی تعمیر میں حصہ لینے والی مزدور خواتین کی ہمت اور مشقت دونوں ہی لائقِ صد ستائش ہیں کہ وہ بھاری بھاری اینٹیں اٹھا کر کئی کئی فٹ بلندی پر چڑھتی ہیں اور مردوں کے ساتھ مزدوری کرتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے شیر خوار بچوں کو پیٹھ پر لادے اپنا کام کرتی رہتی ہیں اور اس ریاضت کے باوجود معاوضہ مردوں سے کم ہی ملتا ہے۔ لیبر لاء کے تحت خواتین کو کسی بھی کارخانے یا کسی بھی نوعیت کی مزدوری کے دوران اتنا وزن اُٹھانے کی اجازت نہیں جس سے اُنھیں کسی بھی قسم کا نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اسی طرح خواتین کو ایسی جگہوں پر کام کرنے کی اجازت نہیں جہاں کیمیکل، پیٹرول، تیل، گیس، ریت اور شیشہ بنانے کا کام کیا جاتا ہے لیکن یہ قانون بھی دیگر قوانین کی طرح کاغذ تک محدود ہے۔
گھر گھر جا کر مختلف کمپنیوں کی مصنوعات کی تشہیر کرنے والی خواتین بھی کم مسائل سے دوچار نہیں ہوتیں۔ انھیں گلی کوچوں میں اپنی روزی روٹی کے لیے پھرنے کے دوران آوارہ مردوں کے غلیظ فقرے اور دل لگی کو بھی نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی فلیٹ یا مکان میں خواتین کی عدم موجودگی میں وہاں موجود مردوں کے بد نیت اور غیر شریفانہ برتاؤ کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ عموماً ایسی لڑکیاں اور خواتین گروہ کی شکل میں یہ کام انجام دیتی ہیں اور ان کے لیے اپنا دفاع کرنا بڑی حد تک آسان ہوتا ہے، لیکن نامناسب رویے یا نازیبا فقروں سے پھر بھی محفوظ نہیں رہتیں۔
محنت کش عورتوں ٹرانسپورٹ کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ بعض خواتین دور دراز کے علاقوں سے دو تین بسیں تبدیل کر کے کام پر جاتی اور گھر واپس آتی ہیں اور اُن کی تنخواہ کا بڑا حصہ بسوں کے کرایوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہ تمام زحمت اٹھا کر رات گئے گھر لوٹنے والی خواتین کی تکلیف میں اس وقت کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جب گھر والے خاص طور پر گھر کے مرد ان سے تاخیر پر آنے کا سبب دریافت کرتے ہوئے شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اس پر جسمانی آرام تو کیا میسر آتا ہے، ان سے ذہنی آسودگی بھی چھن جاتی ہے۔
گھر گھر کام کرنے والی ماسیاں کہلانے والی محنت کش عورتوں کا سب سے بڑا مسئلہ عزتِ نفس کا ہے جو بار بار مجروح ہوتی ہے۔ یہ معاملہ محض بلاجواز ڈانٹ ڈپٹ، تنخواہ کاٹ لینے کی دھمکیوں تک محدود ہو تو وہ شاید اسے اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیں مگرجب ان کو چند ٹکوں کے عوض اپنی عزت کا سودا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو ان کے پاس کام چھوڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ لیکن پھر ان کو اپنے بے روزگار اور نشے کے عادی شوہر کی باتیں سننا پڑتی ہیں جو گھر والی کی تنخواہ پر نظریں جمائے بیٹھے ہوتے ہیں۔
گاؤں اور دیہات میں 75 فی صد سے زائد خواتین زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اٹھارہ گھنٹے یومیہ کام کرنے والی ان خواتین کو زرعی مزدور کی حیثیت حاصل ہے۔ مگر محض عورت ہونے کے سبب ان کی محنت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ انھیں نہ تو محنت کی پوری اُجرت ملتی ہے اور نہ ہی اُن کے ہنر کی داد دی جاتی ہے۔ گھریلو دستکاری، مٹی کے برتن بنانے کے لیے مٹی کی تیاری میں بھی دیہی محنت کش خواتین کی صلاحیتیں نظر آتی ہیں لیکن اسے بھی ان کے روز مرہ معمولات کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ اپنی محنت کی کمائی پر حق ہونا تو بڑی بات ہے خود اپنی کمائی وصول کرنے کا اختیار بھی انھیں حاصل نہیں کہ یہ فریضہ ان کے گھر کے مرد ان کی جگہ رقم وصول کر کے سر انجام دیتے ہیں۔
محنت کش خواتین کا پیشہ خواہ کوئی بھی ہو، کسی بھی ادارے سے تعلق ہو یہ حقیقت ہے کہ تمام محنت کش خواتین گھرکیاں اور دھمکیاں الاؤنس سمجھ کر قبول کرتی ہیں اور اپنا مقدر بھی۔ دیہی ہی نہیں شہری محنت کش عورتیں بھی ان گنت مسائل میں گھری ہوتی ہیں۔
پاکستان میں 1972ء میں سول حکومت نے چوتھی لیبر پالیسی کے اعلان کے بعد پاکستان میں یکم مئی کو محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ نصف صدی گزر گئی، مزدوروں کی کئی انجمنیں بنیں، اس عرصے میں محنت کش بالخصوص عورتوں اور بچوں کے مسائل میں اضافہ ضرور ہوا لیکن ان کے حل کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ زبانی جمع خرچ کی حد تک تو بہت کچھ ہوا اور ہورہا ہے لیکن عملی طور پر دیکھیں تو آج بھی محنت کش عورت کو کام کی جگہ پر اس کا حق نہیں دیا جاتا اور اسے معاشرے میں بھی عزّت اور احترام حاصل نہیں ہے۔
برسوں بیت گئے محنت کش خواتین اچھے دنوں کی آس لگائے بیٹھی ہیں اور انھیں یقین ہے کہ
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا مو سم