ایک تو گڈی بی بی خوب صورت، دوسرے ان کی ادائیں۔ ہائے غضب… بس پارہ تھیں پارہ۔ سارے گھر کا ان کے مارے ناک میں دَم تھا۔
شرارتیں کرنے کا تو گویا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ میز پر سیاہی پھیلی ہوئی ہے تو سمجھ لیجئے، بلا شبہ گڈی نے گرائی ہے۔ گل دان کے پھول نُچے ہوئے ہیں تو ذہن میں سوائے گڈی کے اور کس کا نام آسکتا ہے؟ بھائی جان کی ٹائیاں تو مزے سے دو دو آنے میں ملنے والی ٹین کی گاڑیوں میں جوتی جاتیں۔ ان کے بڑے بڑے جوتے گڑیوں کا گھر بنتے۔ پہلے پہل تو سارے بچّوں نے حد درجہ اعتراض کرنا شروع کیا۔
"کوئی حد ہے۔ ہم تو کبھی اپنی گڑیا کو جوتے میں نہ بٹھائیں۔”
"ارے واہ کسی نے دلہن کو جوتے میں سلایا ہوگا۔” گڈی بیگم تو جدید ترین فیشنوں کی موجد ہیں ہی۔ انہیں ایسے اعتراض بھلا کیا کھلتے؟
"ارے بھئی قسم ہے، خود ہم نے اپنی آنکھ سے آج کل اس ٹائپ کی کاریں دیکھی ہیں۔” کسی اور کچھ اعتراض کیا تو بول پڑیں”بھئی اللہ ہم خود ڈیڈی کے ساتھ رشید انکل کی کار میں پکنک پر گئے تھے۔ بس ہوبہو جوتا ہی دیکھ لو۔”
پھر تو یہ ہونے لگا کہ ریک کے سارے جوتے آنگن کے پچھواڑے ملتے اور جو بھائی جان بھناتے ہوئے آنگن سے جوتے سمیٹ کر لاتے تو کسی میں دلہن بیٹھی ہے تو کسی میں دولہا۔ اور تو اور "گھر” سجانے کی خاطر جو رنگ چڑھائے جاتے تھے وہ جوتوں کا روپ ہی دونا کر دیتے! نتیجے میں گڈی بیگم، اور ان کے ساتھ سب ہی کی پٹائی ہوتی۔ مگر توبہ کیجئے جو وہ ذرا بھی ٹس سے مس ہوتی ہوں! غضب خدا کا۔ زبان تو وہ تیز پائی تھی کہ بڑے بڑوں کے منہ بند کردیے۔ اس پر بھی امی کا وہ لاڈ کہ پوچھئے نہیں۔ ابا لاکھ جوتے ماریں مگر پھر خود ہی لاڈ کرنے بیٹھ جائیں۔
"ارے یہ تو میری بلبل ہزار داستاں ہے۔ یہ نہ چہکے تو گھر میں چہل پہل کیسے مچے۔”
گھر میں کسی ایک بچے کو چاہا جائے تو دوسرے بچے اس کے دشمن بن جاتے ہیں، گڈی بی بی کے بھی ان گنت دشمن تھے، مگر وہ کسے خاطر میں لاتی تھیں۔ کبھی چنّو کی موٹر کی چابی چھپا دی تو کبھی منّی کے جوتے لے جا کر پھولوں کے گملے میں چھپا دیے۔ اور جناب وہ تو ابا تک کو نہ چھوڑتیں۔ اس دن ابا نے عید کی خوشی میں معاف کر دیا شاید۔ ورنہ وہ پٹائی ہوتی کہ سارا چہکنا بھول جاتیں۔ ہوا یوں کہ ابا اپنی کتابیں رکھنے کے لئے ایک نیا شیلف لائے۔ اس سے پہلے والا بک شیلف وہیں ابا کے کمرے میں ہوتا تھا مگر شاید بلبل ہزار داستان کی نظر نہ پڑی ہوگی۔ تب ہی اس نئے شیلف کو دیکھ دیکھ کر اچھل پھاند مچانے لگیں۔
"آہا جی۔۔۔۔۔اور ہو جی۔۔۔۔ ڈیڈی گڑیا گھر لائے ہیں، آہا، ہو ہو۔” اب دوسرے بڑے بچّے تھک ہار کر سمجھا رہے ہیں، مرمر کر کہہ رہے ہیں کہ بی بنّو یہ تمہاری گڑیا کا محل نہیں۔ کتابیں رکھنے کا شیلف ہے، مگر کسی کی مانتیں؟؟ کہنے لگیں۔” یہ جو خانے بنے ہوئے ہیں تو اسی لئے کہ سب الگ الگ رہیں اور لڑیں جھگڑیں نہیں۔۔ اور جو یہ گول گول گھومتا بھی ہے تو اس لئے کہ گڑیوں کے بچّے اگر رونے لگیں تو اس چھت پر بٹھا کر انہیں چک پھیریاں دی جائیں۔
ان کی زبان کی تیزی کے آگے کون منہ کھول سکتا تھا۔ بس جناب ہتھوڑی اور کیلیں لے کر پہنچ ہی تو گئیں۔ ہر طرف کیلیں ٹھونک کر اس میں رنگین جھنڈیاں، غبارے اور پیپر فلاورز لگا دیے، ایسا شان دار گڑیا گھر تیار ہوا کہ سب بچے دیکھتے ہی رہ گئے۔ اب اس کے پاس تو کوئی نہ کوئی دوڑ ہی جاتا، اتنا ڈر بھی کیوں رہے؟ سب کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ سبھوں کی گڑیوں کو ایک ایک کمرہ دے دیا، ہر چند کہ ڈیڈی اپنے ہی لئے گڑیا گھر لائے تھے، پھر بھی اگر وہ محض اسی بات پر چڑ جاتے تو اگلے دن تو عید ہے اور یہ بچّے بجائے عید کی تیاریوں کے الٹ پلٹ دھندوں میں ہی جتے ہوئے ہیں تو۔۔۔؟!
شام کو ننھّے منّے دوست اپنی اپنی عید کی پوشاکیں اور تیاریوں کی داستانیں بتانے، سنانے آئے تو گڈی نے سب کو اپنا گڑیا گھر دکھایا۔ جہاں اب کترنوں کے بچے کھچے کپڑوں کے پرے لٹک رہے تھے۔ دل میں تو سب جل گئے مگر منہ سے تو کہنا ہی پڑا۔ "واہ بھئی۔۔۔ بڑا اچھا گھر ہے۔ اچھا کل آئیں گے۔۔ ٹاٹا۔” عید کا کیا ہے ایک دن کے لئے آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ گڑیا گھر کی خوشی تو لافانی بن کر آئی تھی۔ گڈی کی اتراہٹ کا کیا پوچھنا تھا؟!
ابا عید گاہ سے لوٹے تو مزے سے آکر گردن میں جھول گئیں۔ "ہماری بٹیا کتنی عیدی لے گی؟” جواب میں بٹیا اور بھی اترا گئیں۔ "آپ نے تو پیشگی عیدی دے ڈالی ڈیڈی۔ غضب خدا کا کتنا اچھا گھر ہے ڈیڈی۔”
"ہائیں۔۔۔ کیا بک رہی ہے۔” ابا جھنجھلائے۔ "ہاں ہاں اور جو کل آپ لائے ہیں تو پھر کیا ہے؟” ابا نے تو شیلف گیسٹ روم میں رکھوادیا تھا کہ عید کے بعد فرصت سے اسے اپنے کمرے میں جائز مقام پر رکھوائیں گے آنکھیں گھماکر دیکھا اور پوچھا۔
"گھر، کیسا گھر بھئی۔” جواب میں بٹیا رانی ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی گیسٹ روم تک ڈیڈی کو لائیں۔ ارے یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ نیا شیلف! پورے تین سو روپے میں بنوایا تھا۔ کیلے چبھے ہوئے، ہتھوڑی کی مار سے پالش جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی۔ گوند سے چپکائی گئی جھنڈیا۔ جھولتے غبارے، رنگین پھول۔۔۔ اف۔۔۔۔اف۔
” یہ سب کیا ہے بے بی؟” ڈیڈی بپھر کر بولے۔
"جی گڑیا گھر۔” اب تو ڈیڈی کا پارہ آخری سرے تک چڑھ گیا، ابھی کچھ پٹائی کرتے ہی تھے کہ امی ہائیں ہائیں کرتی لپکی آئیں۔
"اے لو۔۔۔۔ بھلا عید کے دن بچّی پر ہاتھ اٹھاؤ گے؟” ابا نے گڑبڑا کر امی کو دیکھا پھر اپنی لاڈو کو۔ منہ سے تو کچھ بولے نہیں مگر پیر پٹختے کمرے کو چلے گئے۔
دوسرے دن ابا نے اپنے کمرے میں شیلف منگوایا۔ سب کیلیں، جھنڈیاں، جھاڑ جھنکار، غبارے اور پھول نکال باہر کئے۔ اب جو شیلف اپنی اصلی صورت میں سب کے سامنے آیا تو سب دیکھتے ہی رہ گئے۔ لگتا تھا، ہراج گھر سے دو چار روپے میں اٹھالائے ہوں گے۔
بی گڈی کا یہ عالم کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ ساری چہک چہکار ہوا ہو گئی، اب کے تو ابا کو بھی اپنی "بلبلِ ہزار داستان” پر پیار نہ آیا۔ بار بار غصے سے گھورا کئے اور پھر نتیجے میں رانی بٹیا سے بول چال بند کردی۔
اور جناب آپ کو معلو م ہے کہ لاڈلے بچّوں سے ماں باپ بات بند کر دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ انہیں بہت دکھ ہوتا ہے، جسے وہ بمشکل برداشت کر پاتے ہیں اور پھر بیمار پڑنا تو لازمی ہے۔ گڈی بی بی نے بھی پٹخنی کھائی۔ کچھ تو موسم ہی بدل رہا تھا اور کچھ ان کا دل ہی اداس تھا! پلنگ پر پڑے پڑے انہیں بس یہی خیال آتا کہ ہائے سب کے سامنے کیسی رسوائی ہوئی۔ بلا سے ڈیڈی دو چار طمانچے ہی جڑ دیتے۔ مگر اف انہوں نے تو بات ہی بند کر دی۔ اچھی بری کوئی بات سنتے، نہ جواب دیتے، اسکول کی رپورٹ آتی تو کچھ تو جہ بھی نہ دیتے۔ گڈی نے اپنے کمرے میں ایک دن یہ بھی سنا۔ ابا، امی کی بات کے جواب میں کہہ رہے تھے۔
"ہمیں ایسی اولاد کی ضرورت نہیں جو ہمیں اس قدر پریشان کرے۔” اس نے صاف دیکھا کہ ڈیڈی یہ جانتے تھے کہ وہ یہ باتیں سن رہی ہے تب بھی اس کے دل کا کوئی خیال نہ کیا۔ ہائے اللہ، ڈیڈی کو میری ضرورت نہیں۔ امی کو بھی نہیں، منو کو چنو کو رابی منی۔ نیکی، یہ سب مجھ سے کٹے کٹے رہتے ہیں، کیا سچ میں بہت بری ہوں؟ ہاں چنّو کہتا بھی تھا کہ دیکھ لینا ایک دن تم اتنا دکھ اٹھاؤ گی۔ اف تمہاری زبان ہے کہ قینچی۔ اور توبہ کہیں لڑکیاں بھی اتنی شرارت کرتی ہیں؟ اور اب امی۔۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔۔۔ بھائی جان۔۔۔۔۔کوئی مجھے نہیں چاہتا۔۔۔۔۔کوئی نہیں۔۔۔۔اف۔۔۔
پھر ایک دن ڈاکٹر صاحب کمرے سے باہر نکلے اور ابا کے کمرے میں پہنچ گئے، ابا نے بے تابی سے پوچھا۔
"کیوں ڈاکٹر صاحب اب کیا حال ہے بے بی کا؟” ڈاکٹر صاحب مسکرائے۔”شریر بچے بہت ذہین اور بہت حساس بھی ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب۔ میرے خیال سے اب آپ کو اور بیگم صاحبہ کو کبھی شکایت نہ ہوگی کہ رانی بٹیا شرارتی ہے۔ ضدی ہے، کسی کا کہا نہیں مانتی۔ میں نفسیاتی طور پر اس کے دل میں اتر چکا ہوں۔ اب اس وقت تو اسے صرف آپ کے ایک ذرا سے بلاوے کی ضرورت ہے، اتنے دنوں سے جو آنسو بہہ چکے ہیں، ان کا بہہ نکلنا ہی ٹھیک ہے۔”
ڈیڈی لپک کر اٹھے اور پردے کے پاس جاکر پوچھا۔”کیوں بے بی اب کے ہفتے تمہارے مارکس بہت کم ہیں کیا بات ہے؟”
اتنا سننا تھا کہ بی گڈی بے تابی سے اٹھیں اور ڈیڈی سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ "آپ ہی نے محبت اور توجہ چھوڑ دی تو پڑھائی میں خاک جی لگتا۔ امی بھی دور دور رہتی تھیں۔ اور سب۔ بھائی جان۔۔۔۔۔۔”ہچکیاں منہ سے آواز نہ نکلنے دیتی تھیں۔
ڈاکٹر صاحب ڈیڈی کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ اور گڈی کہے جارہی تھی۔
"اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ شرارت اتنی بری چیز ہے کہ امی ڈیڈی سے ٹوٹ جانا پڑتا ہے تو….تو ہم کبھی یوں ضد اورشرارت نہ کرتے۔” ہائے بے چاری موٹی موٹی گوری گوری گڈی اس وقت کیسی دبلی اور زرد نظر آرہی تھی۔۔۔۔! اور یہ سب کچھ تین چار ہفتوں ہی میں تو ہوا۔ ڈیڈی نے ذرا سا مسکراکر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔ اور بے بی کو گلے لگاتے ہوئے بولے۔ "سچ مچ اب اچھی بچی بن جاؤ گی۔”
"جی ہاں۔۔۔۔” وہ آنسو پونچھ کر بولی۔” اور وہ تین سو روپے ہم پر ادھار سمجھئے۔۔۔۔ ڈاکٹر بن جاؤں گی تو پہلی تنخواہ آپ کے ہاتھ میں لاکر رکھ دوں گی۔” پیچھے سے چنّو نے جلا بھنا طعنہ چھوڑا۔
"بھلا بلبل ہزار داستان چہکنا چھوڑ سکتی ہے؟!”
(معروف فکشن رائٹر واجدہ تبسّم کی یہ بچّوں کے لیے لکھی گئی یہ کہانی 1959ء میں ماہ نامہ کھلونا، نئی دہلی میں شایع ہوئی تھی)