اداکار کمال انتہائی خوبرو اور پُرکشش تھے جو مشہور بھارتی اداکار راج کپور سے بہت مشابہت رکھتے تھے اور کمال کی اُن سے ملاقاتیں اور بے تکلفی بھی تھی۔
پاکستان کی فلم انڈسٹری کے اداکار کمال کو اردو اخبارات اور فلمی جرائد میں اکثر پاکستانی راج کپور بھی لکھا جاتا تھا۔ اگر کبھی اتفاق سے دونوں ملکوں کے ان فن کاروں کی ملاقات ہوجاتی تو اس کی خبر یا کسی اسٹوری میں ان کی شکل و صورت کا ذکر ضرور کیا جاتا۔ آج اداکار کمال کے یومِ وفات پر اسی مناسبت سے ایک مشہور قصّہ ملاحظہ کیجیے: ایک مرتبہ کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے راج کپور بھارت کے کسی شہر کے ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے تھے، بھارت میں ان کے مداحوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی اور وہ اپنے وقت کے مقبول ہیرو تھے۔ مقامی لوگوں اور راج کپور کے مداحوں کو ہوٹل میں ان کی موجودگی کا علم ہوا تو وہاں ایک جمِ غفیر اکٹھا ہوگیا۔ ان کا اصرار تھا کہ راج کپور ہوٹل کی بالکونی میں آکر انھیں اپنا دیدار کروائیں۔
شہرت اور مقبولیت بھی عجیب شے ہے۔ فلم اسٹارز کو اپنے مداحوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ راج کپور کی طبیعت اس وقت کچھ ناساز تھی۔ سیّد کمال ان کے ساتھ تھے، راج کپور نے انھیں کہا کہ وہ بالکونی میں جائیں اور لوگوں کو اپنا دیدار کرائیں۔ سیّد کمال ہوٹل کی بالکونی میں پہنچے اور لوگوں کو دیکھ کر اپنا ہاتھ ہلایا۔ لوگوں نے ان سے محبّت جتائی، نیک تمنّاؤں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ انھیں ایک لمحے کے لیے بھی شک نہ ہوا کہ یہ راج کپور نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔
اس مجمع میں سے کچھ لوگوں نے راج کپور سے آٹو گراف لینا چاہا تو ہوٹل میں داخل ہوگئے۔ استقبالیہ پر رش بڑھنے لگا۔ انتظامیہ کی مشکل کو دیکھتے ہوئے راج کپور نے کمال سے پھر درخواست کی کہ وہ ان کی طرف سے آٹو گراف دے دیں۔ کمال کو یہ بھی کرنا پڑا۔ انھوں نے آٹو گراف بکس لیں اور انھیں بھرتے چلے گئے۔ یہاں بھی کسی کو شک نہ ہوسکا۔
مشہور ہے کہ سیّد کمال نے راج کپور سے کہا تھا کہ ’’آپ کی وجہ سے مجھے آج مداحوں کو آٹو گراف دینے اور کی محبت سمیٹنے کا ایسا خوب صورت تجربہ ہوا ہے، جب کہ ابھی میں کچھ نہیں ہوں۔ اس پر راج کپور نے کہا وہ وقت بھی آئے گا جب لوگ سیّد کمال سے آٹو گراف لینے آئیں گے۔ ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور سیّد کمال نے پاکستان میں مقبولیت اور نام و مقام حاصل کیا۔
اداکار کمال نے فلموں میں رومانوی، المیہ اور مزاحیہ کردار ادا کیے اور مشہور ہوئے۔ انھوں نے اپنے دور کی مقبول ترین اداکاراؤں زیبا، دیبا، نیلو، شبنم، نشو اور رانی کے ساتھ کئی فلمیں کیں۔ کمال نے بطور فلم ساز بھی سنیما کو فلمیں دی ہیں۔ ان میں اردو اور چند پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں جو سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ فلموں سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ٹیلی ویژن پر نظر آئے اور ڈراموں میں اداکاری کے علاوہ ان کا بطور میزبان ایک پروگرام بھی بہت مقبول ہوا۔
اداکار سیّد کمال 2009ء میں آج ہی کے دن اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ ان کا تعلق میرٹھ سے تھا جہاں وہ 27 اپریل 1937 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا نام سیّد کمال شاہ تھا۔ بطور اداکار کمال نے قیام پاکستان سے قبل ممبئی میں بننے والی فلم ’’باغی سردار‘‘ میں ایک مختصر کردار نبھایا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آئے اور ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں بطور ہیرو کام حاصل کرکے پاکستانی فلم انڈسٹری میں آگے بڑھنے کا آغاز کیا۔
کمال ایک منجھے ہوئے اداکار ہی نہیں فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھے۔ اداکاری کے میدان میں وہ اپنے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر قسم کے کرداروں میں فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ ان کی 80 سے زائد فلموں میں اردو فلموں کے علاوہ چند پنجابی اور ایک پشتو فلم بھی شامل ہے۔ سیّد کمال کی مشہور فلموں میں زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، ایسا بھی ہوتا ہے، ایک دل دو دیوانے، بہن بھائی، ہنی مون سرفہرست ہیں۔ بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار ان کی فلمیں جوکر، شہنائی، ہیرو، آخری حملہ، انسان اور گدھا اور سیاست ہیں۔ ٹیلی وژن اسکرین پر اداکار کمال مشہور ڈراما سیریل ’’کشکول‘‘ میں بھی نظر آئے تھے۔
1985 کے عام انتخابات ہوئے تو سید کمال سیاست کے میدان میں بھی اترے، مگر کام یاب نہ ہوئے۔ انہی انتخابات کے واقعات کو انھوں نے اپنی فلم ’’سیاست‘‘ میں پیش کیا تھا۔ کمال نے بطور مصنّف اپنی خود نوشت سوانح بھی یادگار چھوڑی۔ انھوں نے تین مرتبہ نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا جب کہ انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔