ہفتہ, جنوری 11, 2025
اشتہار

ملا نصر الدین ہندوستان آئے!

اشتہار

حیرت انگیز

پیارے بچو! اگر آپ کو کہیں تیز چالاک آنکھیں اور سانولے چہرے پر سیاہ داڑھی لیے کوئی شخص نظر آ جائے تو رک جائیے اور غور سے دیکھئے، اگر اس کی قبا پرانی اور پھٹی ہوئی ہو، سر پر ٹوپی میلی اور دھبوں سے بھری ہوئی ہو اور اس کے جوتے ٹوٹے ہوئے اور خستہ حال ہوں تو یقین کر لیجیے کہ وہی خواجہ نصر الدّین عرف خواجہ بخارا ہیں۔

وہی خواجہ نصر الدّین جو ملا نصر الدّین کے نام سے معروف ہیں اور جن کی کہانیاں آج بھی عراق، ایران، ترکی، روس، جرمنی اور انگلستان وغیرہ میں بہت سے لوگوں کو یاد ہیں، ازبکستان، آذربائیجان، ترکمانیہ اور تاجکستان وغیرہ میں اُن کا ذکر اس طرح رہتا ہے جیسے وہ اپنے گھر کے ہوں!

خواجہ بخارا کا گدھا بھی گھر ہی کا کوئی فرد نظر آتا ہے جہاں خواجہ کا ذکر وہاں ان کے گدھے کا ذکر۔

- Advertisement -

تو بچو، خواجہ نصر الدّین عرف خواجہ بخارا عرف ملا نصر الدین اپنے گدھے پر سوار ہندوستان کے سفر پر آئے ہوئے ہیں، ہوشیار چمکتی ہوئی آنکھوں، سانولے چہرے پر سیاہ داڑھی اگائے، پھٹی پرانی قبا اور سر پر میلی کچیلی ٹوپی کے ساتھ کوئی شخص گدھے پر سوار یا اپنے گدھے کو تھامے کہیں نظر آ جائے تو بلا تکلف اسے روک لیجیے ورنہ آپ ایک بہت بڑی شخصیت کے حقیقی دیدار سے محروم ہو جائیں گے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے خواجہ کو ایک شام پرتکلف کھانا ضرور کھلائیے، ہاں جب بھی خواجہ کو مدعو کیجیے تو یہ ہرگز نہ بھولیے کہ ان کے گدھے کے لیے ہری ہری گھاس کی بھی ضرورت ہو گی۔ ایسا نہ ہوگا تو گدھا بدک جائے گا، خدانخواستہ گدھا بدکا تو یہ سمجھئے کہ خواجہ بخارا عرف ملا نصر الدین بدکے۔

ایک شام انڈیا گیٹ سے سرپٹ جو اپنا گدھا دوڑایا تو خواجہ بخارا عرف ملا نصر الدین نے بوٹ کلب کے میدان کے پاس ہی آ کر دم لیا۔

بوٹ کلب پر اتنی بھیڑ تھی کہ اللہ توبہ کوئی جلسہ ہو رہا تھا اور نیتا لوگ تابڑ توڑ اپنا بھاشن داغ رہے تھے۔ ملا جی اپنے گدھے کو لیے ایک طرف بیٹھ گئے، گدھا بھوکا تھا اور خواجہ بخارا کو بھی بھوک لگ رہی تھی۔ گدھا اطمینان سے پیٹ بھر نے لگا اس لیے کہ لان میں ہری ہری گھاس موجود تھی، ملا نصر الدّین کی نظر سامنے کھڑے خوانچے والے کے اوپر تھی کہ جس کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا، انھیں معلوم نہ تھا کہ خوانچے والا کیا فروخت کر رہا ہے۔ سوچ رہے تھے بھیڑ چھٹ جائے تو دیکھیں اس کے پاس کیا ہے۔

بچو، تم سب جانتے ہو کہ اپنے دیش کے نیتا لوگ کیا پسند کرتے ہیں۔ ایک عدد مائیکرو فون اور ایک اسٹیج۔ سننے والے دو چار ہی کیوں نہ ہوں، یہاں اسٹیج بھی تھا، مائیکرو فون بھی اور جنتا بھی، بھلا کس بات کی کمی تھی، نیتا لوگوں کی پھٹی پھٹی آوازوں سے کان کے پردے پھٹ رہے تھے۔ درمیان میں نعرے بھی بلند ہو رہے تھے، زندہ باد، مردہ باد۔ ملا نصرالدین کے لیے یہ عجیب و غریب منظر تھا، سوچنے لگے یہ لوگ دیوانے ہیں یا خون کے پیاسے۔ یہ بات بخوبی سمجھ رہے تھے کہ جو نیتا لوگ بھاشن دے رہے ہیں وہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔ اپنے لفظوں سے نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملا جی سوچنے لگے عجیب بات ہے۔ کہنے کو یہ لوگ رہنما ہیں اور باتیں نفرت کی کرتے ہیں۔ اس سے تو نقصان ان کے اپنے لوگوں کا ہی ہوگا۔ اپنے ملک کا ہوگا۔ جب خواجہ صاحب دہلی پہنچے تھے تو انھوں نے ایک شخص سے پوچھا تھا ’’میاں دلی کا کیا حال ہے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا تھا ’’کیا پوچھتے ہو صاحب، ہر جانب صرف دھما چوکڑی ہے۔‘‘ اب ملا جی کی سمجھ میں دھما چوکڑی کا کیا مطلب سمجھ میں آیا۔ اچانک جلسہ ختم ہوا اور ملا جی نے دیکھا ایک بھگدڑ مچ گئی ہے۔ لوگ ہیں کہ بس ایک دوسرے پر لڑھکتے جا رہے ہیں، کچھ لوگ پستے جا رہے ہیں لیکن نیچے گر کر بھی اپنی بتیسی نکالے ہوئے ہیں جیسے ان کے جوڑوں کا درد ٹھیک ہو رہا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام خوانچے والوں کی چلتی پھرتی دُکانیں لٹنے لگیں۔ خوانچہ والے آئس کریم والے سب اس طرح بھاگ رہے تھے جیسے دم دبا کر بھاگ رہے ہوں۔ خواجہ بخارا کو بصرہ کا وہ ساربان یاد آ گیا بچو، جسے آہن گر نے قرض وصول کرنے کے لیے صرف ایک طمانچہ رسید کیا تھا اور وہ اپنی اُونٹنی چھوڑ سرپٹ دوڑا تھا جیسے اس کے پیچھے بوتل کا جن نکل آیا ہو۔

خواجہ نصر الدّین سوچ رہے تھے لوگ اطمینان سے کیوں نہیں نکل رہے ہیں، یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ وہ یہ کہ وہ لوگ جو نیتا لوگوں کا بھاشن سن رہے تھے آپس میں لڑنے لگے، دھول اڑنے لگی، چیخ پکار، نعرے بازی، مُلّا جی کا گدھا بھی گھاس چھوڑ کر اس جانب دیکھنے لگا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تو لگا ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے۔ ملا جی نے اسے ڈانٹا، کہا: ’’اے عقلمند گدھے تجھے کیا ہو گیا ہے، یہ لوگ تو تقریریں سن کر باؤلے ہو رہے ہیں۔ نفرت اپنی جھولی میں بھر بھر کر لیے جا رہے ہیں، لڑتے بھی جا رہے ہیں اور نفرت سے جھولی بھرتے بھی جا رہے ہیں، ذرا اُن کی آوازیں تھم جائیں پھر اپنا راگ سنانے کی کوشش کر۔’’ گدھا اپنے مالک کی بات فوراً سمجھ گیا اور خاموش ہو گیا۔

ملا جی نے سرد آہ بھر کر کہا: ’’میرے پیارے گدھے تو نیتاؤں سے بہت اچھا ہے تو مدد کرنے والا جانور ہے اور وہ — وہ نفرت پھیلانے والے لوگ! میرے پیارے گدھے، میں نے بخارا میں سنا تھا کہ اس ملک میں بھوک ہے، بیکاری اور بیروزگاری ہے۔ غریبی اور مہنگائی ہے۔ سیلاب اور خشک سالی ہے، اتنی ساری بیماریاں ہیں، پھر یہ نئی بیماری نفرت کی کہاں سے ٹپک پڑی۔’’ گدھے نے ان کی باتیں سنتے ہوئے ایک بار ’ڈھینچو’ کہا یعنی مالک آپ ٹھیک فرما رہے ہیں اور خاموش ہو گیا۔

جب اندھیرا ہونے لگا تو ملا نصر الدّین اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے۔ ایک شخص دوسری جانب سے دوڑا آ رہا تھا۔ اس نے ملا جی کو گدھے پر سوار دیکھا تو ہانپتے ہوئے بولا: ’’حضرت آپ جو بھی ہوں یہاں سے چلے جائیے، اس طرف پولیس کی گولیاں چل رہی ہیں۔ آپ خواہ مخواہ شہید ہونا کیوں چاہتے ہیں۔‘‘

ملا نصر الدین نے اس شخص کو روک کر کہا: ’’السلام علیکم۔‘‘

اس شخص نے کہا: ’’وعلیکم السلام۔ کہنے کا میرے پاس وقت نہیں ہے، میں تو بھاگ رہا ہوں، سنا ہے کہ بھاگنے والے سلام کا جواب دیتے ہیں تو پیچھے سے شیطان اسے دبوچ لیتا ہے۔‘‘ وہ شخص بری طرح ہانپ رہا تھا۔

ملا نصر الدین مسکراتے ہوئے بولے ’’میاں جو ہو رہا ہے ہونے دو، میں تو کبیر داس کی تلاش کر رہا ہوں۔ وہ مجھے مل جائیں تو ہم دونوں حالات پر قابو پالیں گے۔‘‘

’’کبیر داس؟ وہ برسے کمبل بھیگے پانی والے کبیر داس؟‘‘ اس شخص نے پوچھا۔

ہاں وہی کہاں ملیں گے؟’’ ملا نصر الدین نے پوچھا۔ ’’

’’وہ تو ہمارے حال پر ماتم کرتے ہوئے جانے کہاں گم ہو گئے، انھوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا لیکن کسی نے ان کی بات نہیں مانی، پھر وہ چلے گئے، مجھے معاف کیجیے میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘ وہ شخص پھر دوڑنے لگا۔

ملا نصرالدین نے کہا ’’آپ شوق سے دوڑیے، صرف ایک پیغام ہے میرا اسے اس ملک کے تمام لوگوں تک پہنچا دیجیے، یہ پیغام دراصل داس کبیر کا ہے اور اب میرا بھی سمجھئے، لوگوں سے کہیے اس پیغام کو پانی میں گھول کر پی جائیں، اللہ شفا دے گا۔‘‘

جلدی بتائیے پیغام کیا ہے، میں دوڑ رہا ہوں۔’’ اس شخص نے کہا۔’’

’’میرا پیغام یہ ہے، اِسے پڑھ لیجیے، یاد کر لیجیے اور اس ملک کے تمام لوگوں سے کہیے یہ بابا کبیر داس کا پیغام ایک بار پھر سن لو۔ ملا نصرالدّین یہی پیغام سن کر بخارا سے ہندوستان آئے ہیں‘‘۔

آپ جلدی سے پہلے پیغام تو پڑھیے میں دوڑ رہا ہوں۔’’ اس شخص نے کہا۔’’

ملا نصرالدین نے داس کبیر کا یہ شعر پڑھا:

چھینہ بڑھے چھن اوترے سو تو پریم نہ ہوئے
اگھٹ پریم پنجر بسے پریم کہاوے سوئے

اس کا مطلب جلدی سے بتائیے میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘ اس شخص نے گزارش کی۔’’

ملا نصرالدّین نے کہا ’’میاں اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ایک لمحے میں چڑھے اور دوسرے لمحے میں اتر جائے وہ محبت نہیں ہوتی جب ایسی محبت انسان میں پیدا ہو جو کم ہونے والی نہ ہو وہی محبت کہلاتی ہے۔‘‘

اس شخص نے کہا ’’بہت خوب بہت خوب۔ بابا کبیر داس کا جو پیغام آپ لائے ہیں میں اسے ملک کے تمام لوگوں تک پہنچا دوں گا۔ میں دوڑ رہا ہوں، دوڑتے دوڑتے ہر گھر میں یہ بات پہنچا دوں گا۔ اب چلا اس لیے کہ میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘

ملا نصرالدین مسکرائے اور گدھے پر سوار جامع مسجد علاقے کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان کی زبان پر یہ مصرع تھا۔

اگھٹ پریم پنجر بسے پریم کہاوے سوئے۔

(کہانی کے مصنّف شکیل الرحمٰن کا تعلق بھارت سے ہے)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں