پیر, نومبر 18, 2024
اشتہار

کندن لال سہگل کا تذکرہ جن کی دل سوز آواز میں کئی فلمی نغمات مقبول ہوئے

اشتہار

حیرت انگیز

متحدہ ہندوستان میں‌ جب فلمی صنعت کا مرکز کولکتہ ہوا کرتا تھا، اس وقت کندن لال سہگل کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول تھے۔ فلم بینوں‌ نے انھیں بطور گلوکار ہی نہیں‌ سنا بلکہ وہ انھیں اداکاری کرتے ہوئے بھی دیکھا اور اس روپ میں بھی پسند کیا۔

سہگل کی دل سوز آواز نے انھیں ہندوستان بھر میں شہرت دی۔ لوگ انھیں سننا چاہتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ موسیقی اور گلوکاری میں کوئی کندن لال سہگل کا استاد نہیں‌ رہا بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔

انھیں فلمی صنعت میں کے ایل سہگل کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ گلوکار سہگل رندِ بلا نوش بھی تھے اور شراب نوشی کی لت نے انھیں زیادہ عرصہ جینے نہیں‌ دیا۔ وہ 1947ء میں آج ہی کے دن جگر کے عارضے کے سبب دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ سہگل نے زندگی کی صرف 42 بہاریں دیکھیں، اور نوجوانی ہی میں‌ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لیا۔

- Advertisement -

کندن لال سہگل نے 1904ء میں اس قوت کے جمّوں کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد امر چند سہگل تحصیل دار تھے اور مہاراجہ جموں و کشمیر کے ملازم تھے۔ والد کو اپنے بیٹے کے گانے کا شوق قطعاً پسند نہیں تھا، لیکن والدہ ان کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ ان کا نام کیسر دیوی تھا جو خود بھجن اور لوک گیت گایا کرتی تھیں۔ ماں بیٹا اکثر گھنٹوں بیٹھ کر گیت گاتے اور مناجات پڑھتے۔ سہگل کی عمر دس سال تھی جب ایک تہوار کے موقع پر انھوں نے رام لیلا میں سیتا جی کا رول ادا کیا۔ برسوں بعد کندن لال سہگل کلکتہ کے نیو تھیٹر سے وابستہ ہوگئے اور خود کو "سیگل کشمیری” کے نام سے متعارف کروایا۔ انھوں نے اپنے کام کے بارے میں گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ تھیٹر میں اپنا نام بھی سہگل کے بجائے سیگل بتاتے تھے۔

یہ 1938ء کی بات ہے جب سہگل نے جالندھر میں مقیم اپنی ماں کو رقم منی آرڈر کی۔ تب انھیں معلوم ہوا کہ بیٹا فن کار بن گیا ہے۔ بعد میں وہ کلکتہ اور بمبئی میں گلوکار کے طور پر مشہور ہوگئے اور انھیں ایک اداکار کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

کے۔ ایل۔ سہگل نے موسیقی کی تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی، لیکن جمّوں ہی کے صوفی پیر سلمان یوسف کے سامنے اکثر ریاض کرتے تھے۔ کہتے ہیں سہگل نے وصیت کی تھی کہ ان کی ارتھی اٹھاتے ہوئے یہ گانا بجایا جائے جس کے بول تھے: جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے

سہگل کی شادی آشا رانی سے ہوئی جو ہماچل کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی باسی تھیں۔ ان کی زندگی کا ایک قصّہ مشہور ہے کہ سہگل صاحب کی نئی فلم چنڈی داس ریلیز ہوئی تو ان دنوں وہ نئے نئے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے تھے۔ ایک روز سہگل اپنی اہلیہ اور گھر والوں کے ساتھ فلم دیکھنے آئے۔ وہاں ان کے پرستاروں نے انھیں پہچان لیا اور لوگ ان سے ملنے آتے رہے۔ اس لیے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے۔

اس فلم میں بطور اداکار سہگل صاحب کی شادی کا منظر بھی تھا۔ جب پردے پر یہ سین دکھایا جا رہا تھا تو سہگل صاحب اپنی نشست پر موجود نہیں تھے اور ان کی بیوی کو یہ منظر حقیقی محسوس ہوا۔ سہگل صاحب بعد میں‌ آشا رانی کو مشکل سے یہ سمجھانے میں کام یاب ہوئے کہ وہ فلم تھی، اور اس کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں۔ اہلیہ کو یقین دلانے کی غرض سے وہ انھیں اسٹوڈیو بھی لے گئے جہاں‌ اس فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی۔ یہ واقعہ سہگل صاحب کی نواسی پرمندر چوپڑا کی زبانی مشہور ہوا۔ انھیں یہ بات آشا رانی نے بتائی تھی جو ان کی نانی اور سہگل صاحب کی بیوی تھیں۔

کندن لال سہگل نے کلکتہ میں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں سیلز مین کی نوکری بھی کی تھی۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات نیو تھیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے ہوئی اور انھوں نے سہگل کی آواز کو بہت پسند کیا۔ بعد میں انھیں نیو تھیٹر کے ساتھ بطور گلوکار وابستہ ہونے کی پیشکش کی اور وہ اچھے معاوضے پر ان کے ساتھ کام کرنے لگے۔

نیو تھیٹر میں منجھے ہوئے فن کاروں اور موسیقاروں نے سہگل کے فن کو نکھارنے میں مدد دی۔ انہی موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر سہگل نے وہ نغمے گائے جو ہندوستان بھر میں‌ ان کی پہچان بنے۔ ان میں‌ فلم دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہی، اور ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے شامل ہیں۔

نیو تھیٹر کی فلموں کے لیے انھوں نے اداکاری بھی کی اور رفتہ رفتہ شناخت بنانے میں کام یاب ہوئے۔ انھوں نے اس زمانے کی مشہور بنگالی فلم دیو داس میں ایک معمولی کردار ادا کیا تھا اور گانے بھی گائے تھے، لیکن جب یہی فلم ہندی میں بنائی گئی تو کندن لال سہگل نے دیو داس کا مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد میں وہ بمبئی چلے گئے اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہوئے جہاں متعدد کام یاب فلمیں ان کے حصّے میں‌ آئیں۔

سہگل نے فلمی نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ انھیں غالب سے والہانہ شغف تھا اور غالب کو بہت دل سے گایا۔ سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947ء میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔ سہگل نے جالندھر میں‌ وفات پائی۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں