ہفتہ, نومبر 16, 2024
اشتہار

باغ اجاڑنے والی شہزادی (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

اشتہار

حیرت انگیز

کسی بادشاہ کے محل میں ایک بہت خوب صورت باغ تھا جس کی دیکھ بال کے لیے بہت سے مالی بادشاہ نے مقرّر کر رکھے تھے۔

لیکن کچھ عرصے سے ایسا ہو رہا تھا کہ روزانہ رات کو کوئی مخلوق باغ میں آتی اور درختوں کی شاخیں توڑ دیتی۔ بادشاه مالیوں سے بڑا ناراض تھا۔ مالی ہر طرح کوشش کر رہے تھے کہ اُن لوگوں کو پکڑا جائے جو باغ کو تباہ کر رہے ہیں۔ آخر بہت کوشش کے بعد مالیوں کو پتا چلا کہ آدھی رات کے قریب تین ہنس، باغ میں آتے ہیں لیکن صبح جب پڑتال کی جاتی تو گھاس پر انسانی پاؤں کے نشان نظر آتے۔

بادشاہ نے باغ کی رکھوالی کے لیے چوکی دار رکھے۔ لیکن عجیب بات تھی کہ جوں ہی ہنسوں کے آنے کا وقت ہوتا چوکی داروں کو نیند آ جاتی اور اگلی صبح درختوں کی کئی شاخیں ٹوٹی ہوئی ہوتیں۔

- Advertisement -

اس بادشاہ کے تین بیٹے تھے۔ بڑے دو بیٹے تو کافی چاق و چوبند تھے لیکن چھوٹا بہت سست اور ڈھیلا سا تھا۔ لوگ اُسے بے وقوف سمجھتے تھے۔

بادشاہ کے بڑے بیٹے باپ کی پریشانی پر خود بھی پریشان تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح باغ اُجاڑنے والوں کا پتا چل جائے۔ چناں چہ سب سے بڑے شہزادے نے بادشاہ سے کہا: ”ابّا جان، مجھے اجازت دیجیے کہ میں اُن لوگوں کا پتا چلاؤں جو ہمارے باغ کو تباہ کر رہے ہیں۔“

بادشاہ بولا ”ضرور ضرور۔ تم یہ کام نہیں کرو گے تو اور کون کرے گا۔“

بڑا شہزادہ شام ہوتے ہیں باغ میں داخل ہوگیا اور بادام کے درخت کے نیچے چھپ کر بیٹھ گیا۔ اُس نے پکّا ارادہ کر لیا تھا کہ وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی آنکھ بند نہیں کرے گا۔ لیکن عین اُس وقت جب اُسے ہوشیار ہو کر بیٹھنا چاہیے تھا اُس کی آنکھ لگ گئی۔ باغ میں آندھی آئی اور اُس آندھی میں تینوں ہنس اُڑتے ہوئے باغ میں اترے۔

صبح جب بادشاہ شہزادے کا کارنامہ دیکھنے آیا تو وہ یہ دیکھ کر بہت مایوس ہُوا کہ شہزادہ گہری نیند سویا ہوا ہے، اور اُس درخت کی تین شاخیں ٹوٹی ہوئی ہیں جس کے نیچے وہ لیٹا تھا۔ بادشاہ کو بہت غصّہ آیا۔ وہ ناراض ہو کر بولا: ”اگر تم میرے بیٹے نہ ہوتے تو میں تمہارے کان اور ناک کٹوا کر گدھے پر سوار کر کے، تمام شہر میں گھماتا! دفع ہو جاؤ یہاں سے۔“

اگلے دن دوسرے شہزادے نے چوروں کو پکڑنے کا ارادہ کیا۔ لیکن اُس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہُوا جو پچھلی رات بڑے شہزادے کے ساتھ ہوا تھا۔

تیسرے دن سب سے چھوٹے شہزادے نے باغ میں جانے کی اجازت چاہی تو بادشاہ نے کہا ”تم تو بالکل ہی گئے گزرے ہو۔ تمہارے بڑے بھائی جو بہت چالاک اور ہوشیار ہیں، یہ کام نہ کر سکے۔ تم کون سا تیر مار لو گے۔“

لیکن جب چھوٹے شہزادے نے بہت ضد کی تو بادشاہ نے اجازت دے دی اور وہ شام کو باغ میں داخل ہو گیا۔ وہ یہ سن چکا تھا کہ عین اُس وقت جب ہنس باغ میں داخل ہوتے ہیں، چوکی داروں کو نیند آ جاتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے بھائیوں کی طرح وہ بھی سو جائے۔ اس نے چاقو سے اپنی انگلی پر زخم لگایا اور اُس کے اُوپر تھوڑا سا نمک چھڑک لیا تا کہ درد کی وجہ سے اُسے نیند نہ آئے۔

اندھیرا چھا گیا۔ پھر چاند اپنی پوری آب و تاب سے نکلا اور تمام باغ چاندنی سے جگمگا اٹھا۔ پھر بہکی بہکی ہوا چلنے لگی جو آہستہ آہستہ بہت تیز ہو گئی۔ شہزادہ سمجھ گیا کہ اب ہنسوں کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔

اُس نے آسمان کی طرف دیکھا تو دور فضا میں تین چوٹے چھوٹے دھبّے دکھائی دیے جو دیکھتے ہی دیکھتے بڑے ہوتے گئے اور پھر تین سفید ہنس تیزی لیکن خاموشی سے باغ میں اُترے۔ اُن کے پروں کی آواز بھی سُنائی نہ دی۔

شہزادہ چوکس ہو گیا اور جلدی سے ایک جھاڑی میں چھپ گیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تینوں ہنسوں نے اپنے پر اُتار کر اُسی جھاڑی کے پاس رکھ دیے جہاں وہ چھپا ہوا تھا۔ اُن پروں کے اندر سے تین خوب صورت لڑکیاں نکل کر گھاس پر ناچنے لگیں۔ اُن کے سنہری بال چاندنی میں بڑے ہی خوب صورت لگ رہے تھے ۔

شہزادے نے سوچا کہ اگر میں نے پھرتی سے کام نہ لیا تو یہ لڑکیاں جتنی تیزی سے آئی تھیں، اُتنی ہی تیزی سے واپس چلی جائیں گی اور میں ہاتھ ملتا رہ جاؤں گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جاتے وقت یہ کِسی درخت کی ٹہنیاں توڑ جائیں۔ پھر میں ابّا جان کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ لوگ تو پہلے ہی مجھے بے وقوف اور سُست کہتے ہیں۔

یہ سوچ کر وہ بجلی کی سی تیزی سے جھاڑی میں سے نِکلا اور جھپٹ کر ایک لڑکی کے پَر اُٹھا لیے۔ جتنی تیزی سے اُس نے پَر اُٹھائے اُس سے زیادہ تیزی کے ساتھ باقی دو لڑکیوں نے اپنے پَر اُٹھا کر بازوؤں پر لگائے اور ہنس بن کر اُڑ گئیں۔

اب ایک ہی لڑکی باقی رہ گئی تھی۔ وہ کانپتی ہوئی شہزادے کے پاس آئی اور ہاتھ جوڑ کر بولی:

” خدا کے لیے میرے پَر واپس دے دو۔“

”ہرگز نہیں۔“ شہزاده بولا ” پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ کون ہو اور کہاں سے آئی ہو؟“

لڑکی نے شہزادے کو بتایا ”میں ایک بادشاہ کی لڑکی ہوں جس کی سلطنت یہاں سے بہت دور ہے۔ یہ دونوں لڑکیاں جو ابھی ابھی گئی ہیں، میری بڑی بہنیں ہیں۔ ہمارے اُوپر کسی دشمن نے جادو کر دیا تھا۔ وہ ہمیں مجبور کرتا تھا کہ ہم ہنس کا بھیس بدل کر یہاں آئیں اور اس خوب صورت باغ کے کسی درخت کی ایک ایک شاخ توڑ کر لے جائیں۔“

شہزادہ بولا ”لیکن اب تو تم ایسا نہیں کر سکو گی۔ اب میں تمہیں اپنے باپ کا خوب صورت باغ ہرگز اجاڑنے نہیں دوں گا۔“

لڑکی نے کہا ”اب اِس کی ضرورت نہیں رہی۔ جادوگر نے کہا تھا کہ جب تمہارے پَروں کو کِسی اِنسان کا ہاتھ لگے گا تو تمہارے اُوپر سے جادو کا اثر ختم ہو جائے گا۔“

لڑکی شہزادے سے باتیں کر رہی تھی اور شہزادہ اُسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ لڑکی اتنی خوب صورت تھی کہ شہزادے نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شادی کرے گا تو اِسی لڑکی سے کرے گا۔

شہزادے نے لڑکی کو اپنے باپ کے محل اور اس کی سلطنت کے قصّے سُنائے، اپنے بھائیوں کے متعلق بتایا اور پھر آخر میں کہا: ”اگر تُم مجھ سے شادی کر لو تو ہماری زندگی بڑی ہی خوش و خرّم گزرے گی۔“

شہزادی بولی ”افسوس ! ابھی ایسا نہیں ہو سکتا۔“

”کیوں؟“ شہزادے نے کہا۔

”اس لیے کہ پہلے مُجھے ہنس کی صورت میں واپس اپنے دیس میں پہنچنا ہے۔“

شہزادہ بولا ” وہ تو تُم اس وقت تک نہیں پہنچ سکتیں جب تک میں تمہارے پَر واپس نہیں کرتا۔“

”نہ۔۔۔نہ۔۔۔نہ“ شہزادی بولی ”ایسا ظلم نہ کرنا۔ اس طرح تو ہم ہنسی خوشی زندگی نہ گزار سکیں گے۔ اگر تُم نے مجھ سے زبردستی شادی کی تو جب بھی میرا دل چاہے گا تمہیں اور تمہارے بچّوں کو چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔“

شہزاده بولا ” تو پھر کوئی ایسا طریقہ بتاؤ کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہ سکو۔“

شہزادی نے کہا ”اس وقت تو مجھے اپنے گھر جانا ہے۔ اگر تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو تمہیں مجھے تلاش کرنا پڑے گا۔ میرے باپ کا ملک دنیا کے اُس پار ہے اور اُس کا نام ہے ‘کہکشاں’۔ میں تمہیں اپنے باپ کے محل میں ہی ملوں گی۔ لیکن یہ یاد رکھنا کہ ملک کہکشاں کو جو سڑک جاتی ہے، وہ بہت لمبی اور رُکاوٹوں سے پُر ہے۔ اِس ملک کا راستہ تلاش کرنا اِتنا آسان نہیں ہے۔“

شہزادے نے کہا ”کوئی اتا پتا تو بتاؤ۔“

شہزادی بولی ”چاند سے پَرے، سُورج سے بھی پرے اور اس جگہ سے بھی پَرے جہاں سے ہوائیں اور آندھیاں آتی ہیں، میرا ملک ہے۔“

یہ کہتے ہوئے شہزادی ذرا پیچھے کو ہٹی۔ شہزادہ بے دھیان ہو گیا تھا۔ لڑکی نے جلدی سے اپنے پَر بازوؤں پر لگائےاور پلک جھپکتے میں ہنس بن کر اُڑ گئی۔

صبح کو بادشاه چھوٹے شہزادے کی خیر خبر لینے آیا تو وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہُوا کہ درختوں کی کوئی شاخ ٹوٹی ہوئی نہیں ہے۔ وہ کام جو سمجھ دار اور تیز طرار بڑے شہزادے نہ کر سکے تھے، چھوٹے اور سست شہزادے نے کر دکھایا تھا۔

بادشاہ نے شہزادے کی بہت تعریف کی اور اُسے بہت سا انعام دیا ۔ لیکن شہزادہ تو شہزادی کے غم میں اُداس تھا۔ اُس نے بادشاہ سے کہا: ”ابّا جان میں ایک شہزادی کی تلاش میں جا رہا ہوں جس سے میں شادی کروں گا۔“

بادشاہ نے اُسے روکنے کی بہت کوشش کی، بہت سمجھایا لیکن شہزاده نہ مانا اور سفر پر چل دیا۔ جِس گھوڑے پر وہ سوار تھا، وہ بہت تیز رفتار تھا۔ لیکن شہزادہ اِس قدر بے چین تھا کہ اُسے گھوڑے کی رفتار سُست معلوم ہو رہی تھی۔

سات روز کے بعد آخر وہ ایسے علاتے سے گزرا جہاں دُور دُور تک آبادی نہ تھی ۔ ہر طرف پتھّر اور چٹانیں تھیں۔ اب اُسے کچھ اُمید ہوئی کہ شاید شہزادی ایسے ہی کسی علاقے میں رہتی ہو گی۔ دن گزرتے گئے اور اُسے پتھّروں چٹانوں اور کھلے آسمان کے علاوہ اور کچھ نظر نہ آیا۔

وہ اپنے خیالوں میں گُم چلا جا رہا تھا کہ دور، کچھ فاصلے پہ تین جنّ نظر آئے جو خنجر نکالے ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے تیّار تھے۔ شہزاده اُن کے پاس گیا اور دریافت کیا: ”کیا بات ہے؟ کیوں لڑ رہے ہو؟“ اُن میں سے بڑا جِن بولا ”ہم تینوں بھائی ہیں۔ ہمارا باپ ہمارے لیے کچھ جائداد چھوڑ گیا ہے۔ اسی کی تقسیم کے سلسلے میں ہم جھگڑ رہے ہیں۔“

شہزادے نے پوچھا ”کیا جائداد چھوڑی ہے تمہارے باپ نے؟“

اس پر جنوں نے اُسے بتایا کہ اُن کا والد جوتوں کا ایک جوڑا چھوڑ گیا ہے اور ان کو پہن کر انسان ایک قدم میں سات میل کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ ایک چادر ہے جسے اوڑھنے والا دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ ایک ٹوپی ہے جس کے پیچھے ایک پَر لگا ہے۔ اگر ٹوپی کے پَر والا رُخ بدل کر آگے کر دیا جائے تو اِتنے زور کی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے سات توپیں ایک دم داغ دی گئی ہوں۔

شہزادہ کچھ دیر غور کر کے بولا ”اِن چیزوں کو تقسیم نہ کرو بلکہ تُم میں سے جو سب سے زیادہ اِن کا حق دار ہو وہ تینوں چیزیں لے لے۔ لاؤ یہ مجھے دے دو اور جب میں ایک دو تین کہوں تو تینوں بھاگو۔ وہ جو سامنے پہاڑ نظر آ رہا ہے، اُس کی چوٹی کا پتھّر جو سب سے پہلے اُکھاڑ کر لائے گا وہی خوش قسمت تینوں چیزیں لے لے گا۔“

جِنوں نے اُس کی یہ تجویز مان لی اور جب اُس نے ایک دو تین کہا تو تینوں دوڑ پڑے۔ جوں ہی اُنہوں نے دوڑنا شروع کیا، شہزادے نے فوراً جوتے پہنے، چادر اوڑھی اور ٹوپی سر پر رکھ کر غائب ہو گیا۔

اب اُس کا کام آسان ہو گیا تھا۔ اُسے اب گھوڑے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اُس کا ایک قدم سات میل کا تھا۔ وہ چلتا گیا۔ عجیب عجیب علاقے آتے گئے۔ شام تک وہ ایک دلدلی علاقے میں پہنچ گیا۔ اندھیرے کی وجہ سے اب آگے جانا ممکن نہ تھا۔ وہ رات کاٹنے کے لیے وہیں رُک گیا۔

سونے سے پہلے اُس نے ارد گرد نظر دوڑائی تو دُور جنگل میں روشنی سی نظر آئی۔ وہ اُسی طرف چل دیا۔ یہ روشنی ایک جھونپڑی میں سے آ رہی تھی۔ شہزاده اُسی جھونپڑی میں داخل ہوگیا۔ اندر ایک بڑھیا بیٹھی تھی ۔ شہزادے نے اُس سے جھونپڑی میں ٹھہرنے کی اجازت مانگی تو وہ بولی: ”میں چاند کی ماں ہوں۔ آج وہ آسمان کا سفر جلدی ختم کر کے واپس آ جائے گا۔ اگر اُس کی روشنی تم پر پڑ گئی تو اچھی بات نہ ہوگی۔“

لیکن شہزادے نے اتنی ضد کی کہ بڑھیا نے مجبور ہو کر اِجازت دے دی۔ شہزادے کی ابھی آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ چاند واپس گھر آ گیا اور آتے ہی پوچھنے لگا: ”کون ہو تم؟“

شہزادہ بولا ” اے چاند، میں مُلک کہکشاں جانا چاہتا ہوں۔ تُم ساری دنیا پر اپنی روشنی کی کِرنیں بکھیرتے ہو۔ مُجھے کہکشاں کا راستہ بتا دو۔“

چاند بولا ”کہکشاں کو جانے والا راستہ یہاں سے بہت دُور ہے۔ تمہیں ابھی ایک دِن اور ایک رات اور چلنا ہو گا ۔ پھر کسی جگہ کوئی ملے تو اس سے پوچھنا۔“

شہزاده چلتا گیا۔ شام کے قریب وہ پھر ایک جنگل میں پہنچا۔ یہاں بھی اُسے ایک جھونپڑی نظر آئی۔ وہ جھوپڑی میں داخل ہوا۔ جھونپڑی میں ایک بڑھیا بیٹھی تھی۔ اُس نے بڑھیا سے رات گزارنے کی اجازت چاہی تو وہ بولی: ”میں سُورج کی ماں ہوں ۔ میرا بیٹا اب واپس گھر آنے والا ہے۔ اگر اُس نے تمہیں دیکھ لیا تو اچھّا نہ ہو گا۔“

لیکن شہزادے نے ضد کی تو اُس بڑھیا نے بھی اُسے رات بسر کرنے کی اجازت دے دی۔ تھوڑی دیر بعد سُورج آ گیا اور اُس نے شہزادے سے وہی سوال کیا: ”کون ہو تُم اور یہاں کیا لینے آئے ہو؟“

شہزادہ بولا ” اے سورج ، میں مُلک کہکشاں جانا چاہتا ہوں۔ تُم نے ضرور یہ ملک دیکھا ہو گا۔ مجھے اُس کا راستہ بتا دو۔“

سُورج نے کہا ”میں نے یہ ملک کبھی نہیں دیکھا۔ یہ اِتنی دور ہے کہ چاند اور سورج کی روشنی وہاں نہیں پہنچتی۔ تم ابھی اور آگے جاؤ۔ پھر کِسی سے راستہ پوچھنا۔“

شہزادہ بے حد اُداس ہو گیا۔ وہ بہت تھک چکا تھا لیکن شہزادی کی یاد اُس کے دِل سے نہ جاتی تھی۔ وہ پھر آگے چل دیا۔ رات کو اُسے ایک بڑھیا ملی۔ یہ بڑھیا پہلی دو بڑھیوں سے زیادہ رحم دل تھی ۔ اُس نے شہزادے کو بتایا ”میری سات بیٹیاں ہیں، اور یہ ساتوں وہ ہوائیں ہیں جو دنیا میں گھومتی پھرتی ہیں ۔ تُم ذرا انتظار کرو۔ شاید اُن میں سے کسی کو کہکشاں کا پتا معلوم ہو۔“

تھوڑی دیر کے بعد بڑھیا کی بیٹیاں گھر میں داخل ہوئیں تو شہزادے نے اُن سے کہا: ”اے ہواؤ، تم ساری دنیا میں گھومتی پھرتی ہو۔ مجھے کہکشاں نامی ملک کا پتا تو بتاؤ۔“

لیکن اُن میں سے کوئی بھی شہزادے کی مدد نہ کر سکی۔ اب تو شہزادے کا دل ٹوٹ گیا اور وہ رونے لگا۔ بڑھیا نے اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو بولی: ”حوصلہ نہ ہارو۔ ابھی تو میری چھ بیٹیاں ہی آئی ہیں۔ ساتویں جو سب سے زیادہ تیز ہے اور جسے طوفان کہتے ہیں، ابھی آنے والی ہے۔ ذرا انتظار کرو، شاید وہ کچھ بتا سکے۔“

اِتنے میں بڑھیا کی ساتویں بیٹی بھی آ گئی۔ جوں ہی وہ جھونپڑی میں داخل ہوئی، شہزادے نے اُس سے کہا: ”خدا کے لیے مجھے ملک کہکشاں کا پتا بتا دو؟“

ہوا بولی ”میں تو وہیں سے آ رہی ہوں۔ وہ اِتنی دور ہے کہ تمہارا وہاں پہنچنا بہت مشکل ہے۔

لیکن پہلے مجھے یہ تو بتاؤ تم وہاں کیوں جانا چاہتے ہو؟“

شہزادے نے ساری کہانی سنائی تو ہوا افسوس کرتے ہوئے بولی :”اگر تم وہاں پہنچ بھی گئے تو کوئی فائده نہ ہو گا۔ اُس شہزادی کی تو کل دوپہر کو شادی ہو رہی ہے۔ میں آج سارا دن محل کی چھت پر شہزادی کی شادی کے کپڑے سکھاتی رہی ہوں۔“

شہزادہ بولا: ”تم چاہو تو میری مدد کر سکتی ہو۔ شہزادی کی شادی کے تمام کپڑے اڑا کر کیچڑ میں پھینک دو۔ اِس طرح شادی رک جائے گی۔“

ہوا نے کہا ”یہ تو میں کر سکتی ہوں۔ لیکن تم بھی میرے ساتھ چلو۔ اگر میں شادی رکوانے ہیں کامیاب ہو گئی تو پھر تمہیں وہاں موجود ہونا چاہیے۔ شہزادی اِس شادی سے خُوش نہیں، میں نے دیکھا تھا، وہ بہت اُداس تھی۔“

ہوا نے شہزادے کو اپنے ساتھ اڑانا چاہا تو وہ ہنس پڑا اور بولا ” میرے بوٹ دیکھے ہیں تُم نے۔ میرا ایک قدم سات ميل کا ہے۔ تم میری فکر نہ کرو۔“

اور واقعی ایسا ہی ہُوا۔ شہزادہ ہوا سے میلوں آگے تھا، اور ہوا کو اُس کا ساتھ دینے کے لیے بہت تیز چلنا پڑ رہا تھا۔

آخر تنگ آ کر ہُوا نے کہا۔ ”دیکھو شہزادے، تم شاید یہ نہیں جانتے کہ اگر میں زیادہ تیز چلوں تو دنیا میں تباہی آ جاتی ہے، درخت جڑوں سے اُکھڑ جاتے ہیں، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، مکانات گِر جاتے ہیں۔ اِس لیے بہتر یہ ہے کہ ذرا آہستہ چلو۔“

اب اُن کی رفتار پہلے سے کچھ کم ہوگئی تھی، وہ ایک بہت بڑے صحرا سے گزر رہے تھے۔ ہر طرف ریت کے تودے اُڑتے پھرتے تھے۔ اس سے آگے ایسا علاقہ آیا جہاں دھند چھائی ہوئی تھی۔ ایسے پہاڑ آ گئے جن پر صدیوں سے برف جمی ہوئی تھی۔ پہاڑوں کا یہی سلسلہ مُلک کہکشاں کی سرحد تھی۔

اِن پہاڑوں کو عبور کرتے ہی وہ محل نظر آنے لگا جہاں شہزادی کی شادی کی تیّاریاں ہو رہی تھیں۔ ہوا نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اِتنے زور سے چلی کے تمام جھنڈیاں، جھاڑ، فانوس اور قناتیں ٹوٹ پھوٹ گئیں ۔ شادی کے کپڑے اُڑ اُڑ کر دور پانی اور کیچڑ میں جا گِرے۔ ہر طرف آفت سی مچ گئی اور شادی ملتوی کر دی گئی۔

شہزادے نے جادو کی چادر اوڑھ لی۔ اب اُسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ اُس کمرے میں گیا جہاں شہزادی اداس اور غمگین بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ شہزاده اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اُس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ وہ کمرے میں پڑی ہوئی میز پر بیٹھ گیا۔ اُسے سخت بھوک لگی تھی۔

خوش قسمتی سے میز پر ایک کیک اور چھری پڑی تھی اور ٹھنڈے پانی کی ایک بوتل بھی رکھی تھی۔ اس نے کیک کاٹ کر کھانا شروع کیا اور بوتل کو منہ لگا کر پانی پیا۔ وہ یہ دیکھ کر بڑا حیران ہُوا کہ کاٹنے کے باوجود کیک ویسے کا ویسا ہی رہا۔ پانی پینے کے بعد بھی بوتل اُسی طرح بھری رہی۔

جب اُس کا پیٹ بھر گیا تو وہ اطمینان سے شہزادی کے پاس آیا اور بولا ”حضور، میں آ گیا ہوں۔“

شہزادی اتنے قریب ایک مردانہ آواز سُن کر ڈر کے چیخی تو محل کا چوکی دار بھاگا آیا۔ شہزادے نے اپنی ٹوپی کا رخ بدل لیا اور پَر والا حصّہ سامنے کر لیا۔ ایک دم محل توپوں کی آواز سے گونج اُٹھا۔ تمام چوکی دار اور محافظ بھاگے چلے آئے۔ بادشاہ اور ملکہ بھی آ گئے۔ بادشاه نے کہا:

”تم جو کوئی بھی ہو، ہمیں بتاؤ کہ کیا چاہتے ہو؟“

شہزاده بولا ” میں شہزادی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“

شہزادی نے بادشاہ سے کہا کہ یہ شخص، جو دِکھائی نہیں دیتا، جِنوں کے ملک کا شہزادہ ہے۔ اگر آپ نے اِس کے ساتھ شادی نہ کی تو یہ آپ کے ملک کو تباہ کر دے گا۔

بادشاه ڈر گیا اور اُس نے اپنے وزیروں سے مشورہ کر کے شہزادے کی بات مان لی۔ شہزادی اور شہزادے کی شادی بڑی دھُوم دھام سے کر دی گئی۔ تین دن خُوب جشن رہا۔ شادی کی تمام رسمیں پوری ہوئیں لیکن اِس دوران میں شہزادے نے چادر اوڑھے رکھی اور سب کی نظروں سے اوجھل رہا۔ چوتھے دِن شہزادے نے دیوار پر لٹکی ہوئی ایک تلوار اتاری، اُس کے دستے پر پہلے اپنا نام لکھا، پھر لکھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔

یہ سب کچھ لکھ کر اُس نے تلوار دیوار پر لگا دی۔ پھر جادو کے بوٹ پہنے، کیک اور پانی کی بوتل ساتھ لی اور واپس چل کھڑا ہوا۔ راستے میں ایک ایسا ملک آیا جہاں قحط پڑا ہُوا تھا۔ لوگ اِتنے کمزور ہو گئے تھے کہ اُن کی ہڈّیاں نِکل آئی تھیں اور وہ ہڈیوں کے پنجر نظر آتے تھے۔ شہزادے نے جادو کا کیک اُنہیں دے دیا۔ لوگ کھاتے گئے لیکن کیک ویسے کا ویسا ہی رہا۔ اس کے بدلے میں اُس نے لوگوں سے وعدہ لیا کہ اگر کبھی کوئی شہزادی اپنے بچّے کے ساتھ اِدھر سے گزرے تو وہ اُس کی خوب آؤ بھگت کریں اور پھر اُسے اگلے ملک کی سرحد پر چھوڑ آئیں۔

اِس کے بعد شہزادہ ایک ایسے ملک میں داخل ہُوا جہاں برسوں سے بارش نہ ہوئی تھی، کنویں اور دریا سب سوکھ گئے تھے۔ لوگ پانی کی بوند کو ترس رہے تھے اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے۔ شہزادے نے پانی کی بوتل اُن لوگوں کو دے دی۔ اُنہوں نے خوب جی بھر کے پانی پیا، لیکن بوتل ویسی کی ویسی ہی رہی ۔ یہاں بھی اُس نے لوگوں سے وعدہ لیا کہ اگر کبھی کوئی شہزادی اپنے لڑکے کے ساتھ اِدھر سے گزرے تو اُن کی پوری مدد کریں اور اگلے مُلک کی سرحد تک چھوڑ آئیں۔

اُدھر شہزادے کے جانے کے بعد شہزادی بُہت اداس ہو گئی تھی۔ اُس کا کِسی کام میں دِل نہ لگتا تھا۔ اگلے موسمِ بہار میں اُس کے ہاں ایک خوب صورت شہزاده پيدا ہوا۔ وہ بہت ہی حسین تھا۔ سنہرے بال، نیلی آنکھیں اور گلابی رنگت۔ لڑکا بڑا ہوکر نہایت تَن درست نکلا۔ جب وہ چھ سال کا ہُوا تو ایک دِن اُس نے ماں سے ضد کی کہ دیوار پر لٹکی ہوئی تلوار اُسے دِکھائی جائے۔ شہزادی نے تلوار اُتاری تو اُس کی نظر تلوار کے دستے پر لکھی ہوئی تحریر پر پڑ گئی۔

یہ دیکھ کر اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا کہ شہزادہ اپنا پورا پتا تلوار کے دستے پر لکھ گیا ہے۔ یہ تو وہی شہزاده تھا جِس کے باپ کے باغ میں شہزادی ہنس بن کر جایا کرتی تھی۔

شہزادی نے اپنے لڑکے سے کہا ”چلو بیٹا اب ہم تمہارے بابا کی تلاش میں نِکلتے ہیں۔“ اگلے ہی دِن وہ روانہ ہو گئی۔ اُس کے ساتھ ایک فوجی دستہ، بے شمار نوکر چاکر اور سامان سے لدی ہوئی گاڑیاں تھیں۔

جب وہ اُس ملک میں پہنچے جہاں کے لوگوں کو شہزادے نے کیک دیا تھا تو اُنہیں شہزادے سے کیا ہوا وعدہ یاد آ گیا اور اُنہوں نے شہزادی اور اُس کے بیٹے کا شان دار استقبال کیا۔ پھر وہ شہزادی اور اُس کے ساتھیوں کو دوسرے ملک کی سرحد تک چھوڑ آئے۔

یہ ملک وہ تھا جس کے باشندوں کو شہزادے نے پانی کی بوتل دی تھی ۔ یہاں بھی شہزادی اور اُس کے ساتھیوں کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ یہ لوگ بھی شہزادی کو اگلے ملک کی سرحد تک حفاظت سے پہنچا آئے۔ ایک دِن کا سفر کرنے کے بعد شہزادی شہزادے کے شہر کے نزدیک پہنچ گئی لیکن وہ شہر میں داخل نہیں ہوئی بلکہ اُس سے کچھ فاصلے پر ایک کھلے میدان میں رُک گئی۔

میدان میں خیمے لگا دیے گئے، قالین بچھا دیے گئے اور تمام قیمتی اور خوب صورت سامان اور جو شہزادی ساتھ لائی تھی، سجا دیا گیا ۔ پھر شہزادی نے بادشاہ کو پیغام بھجوایا کہ میں مُلک کہکشاں کی شہزادی ہوں اور آپ کی بہو بننا چاہتی ہوں۔ مہربانی فرما کر اپنے بیٹوں کو باری باری میرے پاس بھیجیے تا کہ میں اُن میں سے ایک کو چُن لوں۔

سب سے پہلے بڑا شہزاده بن سنور کر نِکلا اور گھوڑے پر سوار ہو کر شہزادی سے ملنے گیا۔ شہزادی کے بیٹے نے پُوچھا:

”امّی، کیا یہ میرے ابّو ہیں؟“

شہزادی بولی ”نہیں بیٹے۔ یہ تمہارے ابّو نہیں ہیں۔“

بڑا شہزادہ واپس چلا گیا تو دوسرا شہزادہ قسمت آزمانے آیا۔ اُسے دیکھ کر بھی لڑکے نے وہی سوال کیا۔ شہزادی نے جواب دیا کہ بیٹے، یہ بھی تمہارے ابّو نہیں ہیں۔

سب سے آخر میں چھوٹا شہزادہ گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا۔ شہزادی نے خیمے کے اندر ہی سے پہچان لیا اور لڑکے کو بتایا کہ بیٹا یہی تمہارے ابّو ہیں۔

لڑکا بھاگ کر خیمے سے باہر نِکلا اور اپنے باپ سے لپٹ گیا۔ خوشی کے مارے شہزادی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ تینوں دیر تک باتیں کرتے رہے، اور جب ایک دوسرے کو سارا قصّہ سُنا چُکے تو شہزاده اُن کو لے کر اپنے محل میں آ گیا۔ اُس کے بھائی یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ یہ سُست اور نالائق لڑکا شہزادی کو کیسے پسند آ گیا۔ لیکن اُنہیں کیا پتا تھا کہ شہزادی کو حاصل کرنے کے لیے اُس نے کیسی کیسی مصیبتیں برداشت کی تھیں۔

شہزادی اور شہزادہ وہاں زیادہ دِنوں نہیں رکے، فوراً ہی کہکشاں کی طرف چل پڑے جہاں شہزادے نے بہت عرصے تک حکومت کی اور شاید آج بھی وہاں اُسی کی نسل حکومت کر رہی ہو۔ لیکن ہمیں اِس بات کا ٹھیک پتا نہیں چل سکتا کیوں کہ کہکشاں تک جانا آسان نہیں۔ وہاں تو وہی پہنچ سکتا ہے جو پہلے چاند اور سورج کے پاس سے گزرے ۔ پھر کچھ ہواؤں سے راستہ پوچھنے کے بعد ساتویں ہوا کے ساتھ ایسے جوتے پہن کر سفر کرے جو ایک قدم میں سات میل کا فاصلہ طے کرتے ہوں۔ پھر ویران صحراؤں اور برفانی پہاڑوں میں سے گزرے۔ تب کہیں جا کر اُسے پتا چلے گا کہ کیا ملک کہکشاں پر آج بھی اُسی شہزادے کی نسل حکومت کرتی ہے۔

(پولینڈ کی دل چسپ لوک کہانی، مترجم سیف الدّین حُسام)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں