کراچی : پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی،روپے کی قدر میں استحکام اور مسلسل کم ہوتی افراط زر کی شرح کے باوجود سال دو ہزار چودہ میں زور مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں میں مسلسل اضافے ریکارڈ کیاگیا۔
سال دو ہزار چودہ کے آغاز پر مہنگائی کی شرح سات اعشاریہ چار فیصد پر تھی جو سال کے اختتام پر کم ہوکر چار اعشاریہ تین فیصد ہوگئی مگر شہریوں تک اس کے ثمرات منتقل نہیں ہوئے۔
آٹے کی قیمت میں کمی ہوئی تو گیس کی قیمت میں اضافے سے تندوری روٹی دس روپے کی ہوگئی۔ دالوں کی قیمت میں دس سے چھتیس روپے فی کلو کا اضافہ ہوا۔ بکرے کا گوشت سو روپے اور گائے کا گوشت چالیس روپے مہنگا ہوا۔
شہری انتظامیہ اور پرائس کنٹرول اتھارٹی کی نااہلی کے باعث زیادہ تر شہروں میں دودھ مقررہ قیمت سے چودہ روپے تک مہنگا فروخت ہوااور ٹیٹرا پیک کمپنیوں کو تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔
ایک سال میں پچیس روپے فی لیٹر مہنگا کیا گیا۔ سبزیاں بھی بحرانو ں کا شکار رہیں ۔ کبھی پیاز ستر روپے کلو ہوگئی، ٹماٹردوسوروپےکلو اور کبھی آلو سو روپے کلو میں فروخت ہوا۔