برزخ ویب سیریز دیکھنے سے پہلے یہ جان لیجیے
آپ کے لیے جاننا ضروری ہے کہ تجریدیت کیا ہوتی ہے، علامت اور استعارہ کسے کہتے ہیں اور تمثیل کا تخلیقی اظہار کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’سُرریل ازم‘‘ (Surrealism) کیا چیز ہے، کس طرح عالمی ادب اور مصوری میں ان تمام نظریات کا استعمال ہوا۔ بعد میں بین الاقوامی فلمی دنیا نے بھی ان نظریات کو اپنایا۔ عالمی سینما میں ایسے افکار اور نظریات کی بنیاد پر فلمیں اور ویب سیریز بنانے کی روایت اب خاصی پرانی ہوچلی ہے، حتیٰ کہ ہمارے پڑوسی ممالک ہندوستان اور ایران میں بھی ایسے نظریاتی تجربات سے بھرپور فلمیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جنہیں ہم عرف عام میں ’’متوازن سینما‘‘ یا ’’آرٹ فلمیں‘‘ کہتے ہیں۔
پاکستان میں البتہ ان نظریات کی بنیاد پر تھیٹر، مصوری اور ادب کے شعبوں میں تو کام ہوا، لیکن ہمارا ٹیلی وژن اور سینما اس سے تقریباً محروم رہا۔ نئے فلم سازوں میں کچھ بیدار مغز اور باشعور فلم ساز ان فنی باریکیوں سے واقف ہیں، تو وہ شاید اب کچھ ایسے تجربات کریں، جن کا تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔ تو یوں سمجھیے ایسا ہی ایک تجربہ ویب سیریز کی دنیا میں پاکستان کی طرف سے ہوا ہے، جس کا نام ’’برزخ‘‘ ہے۔ یہ کیسا تجربہ ہے، اس کا فیصلہ آپ ویب سیریز دیکھ کر خود کریں۔ ہم نے اس کو کیسا پایا، اس پر ہمارا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
برزخ کیا ہے؟
عربی زبان کے اس لفظ بطور مذہبی اصطلاح دیکھنا ہوگا۔ لغوی اعتبار سے برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اس سے مراد، روح اور جسم کے درمیان، موت کے بعد سے قیامت تک کی آڑ یا درمیانی عرصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمام جن و انس حسبِ مراتب برزخ میں رہیں گے۔ عالمِ برزخ سے کچھ تعلق دنیا اور کچھ کا آخرت کے ساتھ ہوتا ہے، جب تک کہ تمام روحیں قیامت کے روز خدا کے حضور پیش نہیں ہو جاتیں۔
اس اصطلاح کا دنیا کے ساتھ تعلق کچھ یوں ہے، جب انسان مر جاتا ہے، تو اس کے عزیز و اقارب میّت کے ثواب کے لیے صدقہ، خیرات اور ذکر و اذکار کرتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں روحیں قیامت آنے تک رہتی ہیں اور بہت ساری روحیں ایسی بھی ہیں، جو عالمِ ارواح سے باہر بھی آتی جاتی ہیں۔ اس عرصے میں بدن اور روح کا تعلق کسی نہ کسی طرح رہتا ہے، وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو بھی محسوس کرتے ہیں۔
اس اصطلاح اور اس سے جڑے عقائد کو مزید تفصیل سے سمجھنے کے لیے اسلامی کتب اور متعلقہ ویب سائٹس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کی تسخیر کے لیے جو علوم وجود میں آئے، بھلے وہ اسپیس سائنس ہو یا کوانٹم فزکس، ان سب کے مطابق برزخ عدم ہے یعنی ڈارک انرجی۔ یعنی بزرخ وہ نقطۂ تبدل ہے، جس پہ حالتوں کی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اس طرح ہم مذہبی اور سائنسی دونوں پہلوؤں سے اس لفظ اور اصطلاح کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔
مرکزی خیال/ کہانی
مذکورہ ویب سیریز کا مرکزی خیال تو مندرجہ بالا افکار پر ہی محیط ہے، مگر ظاہر ہے، کہانی لکھتے ہوئے ویب نگار نے اس کو اپنے طرز سے بیان کیا ہے، جس میں افسانوی رنگ بھی شامل ہے۔ اس ویب سیریز کی کہانی کے مطابق، ایک پہاڑی وادی ہے، جو حسین درختوں سے لدی پھندی ہے، اس شان دار فطری مظاہر کو بیان کرنے والے گاؤں کا کرتا دھرتا، جس کو چوہدری، وڈیرا، جاگیر دار، سردار اور کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ ’’آقا‘‘ نامی شخص ہے، جس نے اپنے اوائلِ جوانی میں محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی محبوبہ کو بیوی بنایا اور اس کو پتوں کا ہار پہناتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ کمانے کے لیے شہر جائے گا اور اس کے لیے سونے کا ہار بنوا کر لائے گا۔
وہ جب کئی برسوں کے بعد شہر سے لوٹتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی دنیائے فانی سے کوچ کرچکی ہے۔ اس کے بعد وہ اس کی یاد میں ایک اور شادی کرتا ہے، اور اس عورت کے بطن سے اولاد بھی نصیب ہوتی ہے، مگر وہ پہلی بیوی کو بھول نہیں پاتا جو اس کی محبوبہ بھی تھی، اور آخر کار زندگی کے اختتامی برسوں میں وہ ڈمنشیا نامی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے، جس میں انسان کی یادداشت اور حواس دھیرے دھیرے ختم ہونے لگتے ہیں۔ اب اس بوڑھے کی ضد ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی سے دوبارہ شادی کرے گا، جو عدم سے وجود پائے گی اور ظاہر میں اس سے ملاپ کرنے آئے گی۔ یہ مرکزی کردار ہے، جس کے اردگرد اس کے بھائی، اس کی اولاد، گاؤں کے لوگ اور مقامی پولیس افسر سمیت دیگر کرداروں کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔
اس گاؤں میں اب یادداشت کھوتا ہوا بوڑھا اپنی شادی کی تیاری کررہا ہے۔ اولاد بھی اس مقصد کے لیے مختلف شہروں سے آچکی ہے۔ گاؤں کے لوگ اس شادی سے خوف زدہ ہیں۔ گاؤں میں چھوٹی کئی بچیاں لاپتا ہوچکی ہیں، جن کے بارے میں ایک عام خیال ہے کہ وہ روحوں کے بلانے پر ان کے ساتھ عالم ارواح میں چلی گئی ہیں۔ اس بوڑھے کی ایک لاڈلی اور معاون بیٹی کا نام شہرزاد ہے، جس کے بارے میں یہ دھندلا تاثر ہے کہ وہ اس کی اُسی پہلی بیوی سے ہے، جس نے اس کو عالمِ ارواح میں جانے کے بعد پیدا کیا اور اسے دنیا میں بھیج دیا۔گاؤں کے لوگوں کا بھی یہی خیال ہے۔
اب آقا پُرعزم ہے اپنی شادی کے اعادے کے لیے، لاڈلی بیٹی معاونت کررہی ہے جو عالمِ ارواح کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ باقی دو اولادیں اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہی خیال گاؤں کے تھانیدار کا بھی ہے اور گاؤں کے نمبردار کا بھی، جو آقا کا بھائی بھی ہے۔ اب اصل میں ماجرا کیا ہے۔ اجسام اور روح کس طرح اس کہانی میں مل رہے ہیں، ملیں گے بھی یا نہیں اور کیا ہوگا، اس پر کہانی آپ کو متجسس کیے رکھے گی، جس کو توجہ سے دیکھنا ضروری ہے، کیونکہ بہت کچھ علامتوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ بوجھ اٹھائے چلتے ہوئے اجسام، کبوتر، پرانی روایات کی کتاب، لال رنگ کے ملبوسات، گلابی رنگ کا دھواں اور بہت کچھ اس کہانی کو تہ در تہ بیان کر رہا ہے، البتہ اس کہانی میں بہت سارے ایسے تصورات بھی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مذہبِ اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ وہ مصنّف کے ذہن کی اختراع ہے اور انہوں نے اپنی کہانی میں کئی افسانوی رنگ بھرے ہیں۔ اردو اور انگریزی میں بیان کی گئی، اس کہانی کے مصنف عاصم عباسی ہیں۔
پروڈکشن اور دیگر تخلیقی شعبے
یہ ویب سیریز پاکستان اور ہندوستان کی مشترکہ پروڈکشن ہے۔ پاکستان سے اس کے مرکزی اور معروف پروڈیوسر وقاص حسن ہیں۔ ہندوستان سے شلجا کجروال اس ویب سیریز کی مرکزی پروڈیوسر ہیں، وہ اس ویب سیریز کے ہدایت کار عاصم عباسی کے ساتھ ماضی قریب میں ’’چڑیلز‘‘ ویب سیریز کے لیے بھی بطور پروڈیوسر کام کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ویب سیریز ’’قاتل حسینوں کے نام‘‘ اور ’’دھوپ کی دیوار‘‘ سمیت پاکستانی فلم ’’لیلیٰ بیگم‘‘ شامل ہیں، جن میں وہ پروڈیوسر کے فرائض نبھا چکی ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ بھی اس ویب سیریز میں دونوں ممالک سے مزید کئی پروڈیوسرز شامل ہیں۔
مذکورہ ویب سیریز سمیت یہ تمام پروڈکشنز زی زندگی (زی فائیو) کے لیے کی گئی ہیں، جو معروف ہندوستانی اسٹریمنگ پورٹل ہے۔ ہندوستانی پروڈیوسر شلجا کجروال کا پاکستانی فلم سازوں کے ساتھ اس قدر اشتراک حیرت انگیز ہے، جب کہ ابھی تو کئی برسوں سے دونوں ممالک کا ماحول یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی فلمیں اپنے اپنے ملک میں ریلیز نہیں کرسکتے، جس اسٹریمنگ پورٹل پر یہ مشترکہ پروڈکشن کی بنیاد پر سارا پاکستانی کونٹینٹ ریلیز کیا جا رہا ہے، یہ اسٹریمنگ پورٹل تو پاکستان میں کام ہی نہیں کرتا ہے۔ آپ گوگل کرکے دیکھ سکتے ہیں، پھر بھی ہندوستانی پروڈیوسر کی اس قدر دل چسپی قدرے مشکوک بھی ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر تخلیقی منصوبے متنازع بھی ہیں، جس طرح اب ’’برزخ‘‘ جیسی ویب سیریز میں امرد پرستی جیسے قبیح فعل کو بھی کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے، جس کی ضرورت کہانی میں محسوس نہیں ہوتی، مگر یہ اس کا حصہ ہے۔
مجموعی حیثیت میں یہ ویب سیریز بطور پروڈکشن ڈیزائن اچھی ہے، جس کے پیچھے ایرج ہاشمی کی کوششیں شامل ہیں۔ اس ویب سیریز میں تمام ضروری پہلوؤں کا خیال رکھا گیا ہے، مگر خاص طور پر دو چیزوں نے بہت متاثر کیا، جن میں پہلی چیز بصری اثرات (ویژول ایفکٹس) ہیں، جن میں پاکستان سے محمد عمر اسلم اور ہندوستان سے ششی سنگھ راجپوت نے اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا۔ دوسری اہم چیز موسیقی ہے،جس کو پاکستان کی نئی نسل سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکار اور موسیقار سرمد غفور نے ترتیب دیا ہے، جو قابلِ ستائش ہے۔ سینماٹو گرافی مواعظمی کی ہے، جب کہ اس کے ساتھ دیگر شعبوں، جن میں ایڈیٹنگ، لائٹنگ، کاسٹیوم، آرٹ ڈیزائننگ، آڈیو اور دیگر شامل ہیں۔ ان تمام متعلقہ شعبوں میں پیشہ ورانہ کام دیکھنے کو ملا ہے۔
ہدایت کاری
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عاصم عباسی ایک بہت اچھے ہدایت کار ہیں، جنہوں نے فیچر فلم ’’کیک‘‘ سے مجھے متاثر کیا، میں نے ان کی وہ فلم ریویو بھی کی تھی، لیکن اس کے بعد اب جا کر، اس ویب سیریز سے انہوں نے اپنے خالص تخلیقی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ عاصم عباسی چونکہ مذکورہ ویب سیریز کے مصنّف بھی ہیں، جو کہ میری رائے میں ان کا کمزور شعبہ ہے، اس لیے انہیں صرف اپنی ہدایت کاری پر ہی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم ان کا مزید خوب صورت اور تخلیقی کام دیکھ سکیں۔
اداکاری
اس ویب سیریز میں سب سے بہترین اداکار جس کا انتخاب کیا گیا، وہ سلمان شاہد ہیں۔ وہ لیونگ لیجنڈ ہیں، اس کے علاوہ مرکزی کرداروں میں فواد خان اور صنم سعید کے علاوہ پوری کاسٹ ہی تقریباً درست انتخاب ہے۔ ان دو باصلاحیت اداکاروں کی جگہ اس کہانی میں نہیں بنتی تھی، نجانے کیوں ان کو کاسٹ کیا گیا، یہ دونوں اپنے کرداروں کو نبھانے میں ناکام رہے۔ ان کے ہاں تصنّع اور جذبات سے عاری اداکاری دیکھنے کو ملی ہے، یہ مس کاسٹنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے مزاج کے لحاظ سے دیگر کئی کرداروں میں متاثر کن کام کرچکے ہیں، خاص طور پر فواد خان تو بہت عمدہ اداکار ہیں، البتہ صنم سعید کو ہماری ڈراما انڈسٹری نے اداکارہ بنا دیا، ورنہ ان کا اصل کیریئر ماڈلنگ تھا، وہ وہیں ٹھیک تھیں۔ اس ویب سیریز میں پس منظر میں آواز یعنی صداکاری کے لیے بھی صنم سعید کا انتخاب کیا گیا، جب کہ ان کی آواز صداکاری کے لیے موزوں نہیں ہے، انھیں سنتے ہوئے محسوس ہوگا کہ وہ ناک میں بول رہی ہیں۔ یہ سب تو ہدایت کار کو دیکھنا ہوتا ہے، ظاہر ہے اس میں اداکاروں کا کوئی قصور نہیں ہے۔
اسی ویب سیریز میں محمد فواد خان، میثم نقوی اور کلثوم آفتاب جیسے انتہائی شان دار اداکار اور صدا کار موجود ہیں، جنہوں نے اداکاری بھی خوب جم کر کی۔ ان میں سے کسی کی آواز کو استعمال کر کے کہانی کی پڑھنت کو چار چاند لگائے جاسکتے تھے۔
تیسری قسط میں وہ منظر، جب ایک کردار (کلثوم آفتاب) اپنی بیٹی کی گمشدگی کے بارے میں گاؤں والوں کو بتا کو رہا ہے اور اپنی ممتا کا دکھ بیان کررہا ہے، یہ منظر اور مونو لاگ(خود کلامی) اس ویب سیریز میں صنم سعید کی پوری اداکاری پر بھاری ہے۔
اب جب روایتی میڈیم اور سنسر بورڈ وغیرہ سے جان چھڑا کر آزاد میڈیم کے لیے چیزیں تخلیق کر ہی رہے ہیں تو برانڈنگ پرفامرز کی بجائے اسٹینڈنگ پرفامر کو موقع دینا ہوگا، جس طرح ہندوستان میں دیا جاتا ہے، ورنہ ہم اسٹریمنگ پورٹلز کی آزاد دنیا میں بھی جلد اپنا اعتبار کھو دیں گے۔ تنقید برائے تعمیر سمجھ کر ان پہلوؤں پر ضرور غور کیا جائے۔
حرف آخر
اس ویب سیریز کے تناظر میں سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر کمنٹس میں منفی و مثبت تاثرات پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں کیا سوچا جا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، جو خوش آئند ہے۔ میری حتمی رائے بھی یہی ہے کہ یہ ایک اچھی ویب سیریز ہے، جس پر عاصم عباسی اور ان کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔
قارئین! اگر آپ علامت، استعارہ، تشبیہ اور تجرید میں دل چسپی لیتے ہوئے ایک ایسی کہانی دیکھنے کے طلب گار ہیں تو یہ ویب سیریز آپ کو لطف دے گی۔ آپ اس ویب سیریز کو یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ معمولی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کوشش کو سراہیے۔ہمیں امید ہے، ہمارے یہ نئے تخلیق کار مستقبل میں مزید متاثر کن کہانیاں دیں گے اور ہمیں حیران کرتے رہیں گے۔