1917ء میں آج ہی کے روز روس میں انقلاب کے بعد دنیا نے محنت کشوں اور عام کارکنوں کی پہلی حکومت قائم ہوتے دیکھی تھی۔ اس عظیم انقلاب کی وجہ سے دنیا کے لیے آج کا دن نہایت اہمیت کا حامل اور ایک بڑا موضوع بھی ہے۔
معروف ادیب اور کمیونسٹ راہ نما سجاد ظہیر لکھتے ہیں، "انقلابِ روس کا تمام اقوامِ مشرق پر گہرا اثر پڑا۔ دنیا کی پہلی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت کے قیام، سرمایہ داری اور جاگیری نظام کے خاتمے اور روسی سلطنت میں محکوم ایشیائی اقوام کی آزادی نے مشرقی قوموں کی آزادی کی تحریکوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔ ایک نیا انقلابی فلسفہ، نیا انقلابی طریقۂ کار مثالی حیثیت سے ہمارے سامنے آیا۔ ساتھ ہی ساتھ روس کی نئی حکومت نے براہِ راست اور بالواسطہ مشرق کی ان قوموں کی مدد کرنا شروع کی جو سامراجی محکومی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔ چنانچہ ترکی، ایران، افغانستان نے سوویت حکومت کی پشت پناہی حاصل کر کے سامراجی جوئے کو اتار پھینکا۔ کمال اتاترک، رضا شاہ پہلوی، شاہ امان اللہ، چین کے قومی رہنما سن یات سین روسی انقلاب کے عظیم رہنما لینن سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے۔ اقوامِ مشرق کے ان آزادی خواہ رہنماؤں کو احساس تھا کہ دنیا میں ایک ایسی طاقت وجود میں آگئی ہے جو نہ صرف یہ کہ سامراجی نہیں ہے بلکہ عالمی پیمانے پر سامراج کی مخالف اور محکوم اقوام کی آزادی کی طرف دار اور حمایتی ہے۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہی یہاں پر زبردست آزادی کی لہر اٹھی تھی۔ نان کوآپریشن اور خلافت کی تحریکوں میں لاکھوں ہندوستانیوں نے شریک ہو کر برطانوی سامراج کو چیلنج کیا تھا۔ اسی زمانے میں ہندوستان کے کئی انقلابی افغاستان سے گزر کر تاشقند پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے اکثر روسی انقلاب اور مارکسی نظریے سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اس کی کوشش کی کہ ہندوستان میں کمیونسٹ خیالات اور کمیونسٹ طریقۂ کار کی ترویج کی جائے۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ہندوستان میں مارکسی لٹریچر کی درآمد اور اس کی اشاعت پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ پھر بھی ہندوستان کے انقلابی غیر قانونی طریقے سے اس قسم کا لٹریچر حاصل کر لیتے تھے۔
ہمارے صنعتی مرکزوں کے مزدوروں کے ایک حصے، نوجوان دانش وروں اور طلبہ میں مارکسی نظریے اور فلسفے کا مطالعہ ہونے لگا تھا۔ بمبئی، کلکتہ ، لاہور، امرتسر وغیرہ میں ایسے رسالے اور ہفتہ وار نکالے جاتے جن میں مارکسی خیالات اور روس کی انقلابی حکومت کے کارناموں، عالمی کمیونسٹ تحریک کے متعلق اطلاعات اور خبریں فراہم کی جاتیں۔ گو کہ ان رسالوں کی عمر کم ہوتی تھی پھر بھی وہ اپنا کام کر جاتے تھے۔”
انقلابِ روس ہی نہیں دہائیوں بعد سوویت یونین کا بکھرنا بھی بلاشبہ تاریخ کا ایک عظیم واقعہ ہے، کیوں کہ اس کا اس خطّے پر ہی نہیں دنیا پر گہرا اثر پڑا اور اس کے بعد کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ 7 نومبر کی بات کریں تو اس روز روسی محنت کشوں اور عوام نے بادشاہت کو کچل کر انقلاب کی تکمیل کی تھی۔ اسے بالشویک انقلاب یا اکتوبر انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔
اس انقلاب کی قیادت لینن کر رہا تھا۔ لینن انیسویں صدی کے عظیم فلسفی، معیشت دان اور انقلابی کارل مارکس کا ایک بڑا معتقد تھا۔ کارل مارکس روس میں سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ معاشی مساوات کےساتھ سماجی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیوں کا وہ پرچارک تھا جس نے ملک کے باشعور افراد کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا اور اس کی بات ہر طبقۂ عوام بالخصوص مزدور اور محنت کش کے دل میں اتر گئی۔ مارکس کا فلسفہ کہتا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے ہی سماجی ڈھانچے اور متوسط طبقے کا طرزِ زندگی تباہ کر دیتا ہے۔ اِس کے انقلابی فلسفہ نے فضا بنا دی تھی جس سے متاثر ہو کر لینن نے بڑی جدوجہد کی اور اپنے ساتھیوں کو روس میں انقلاب لانے کے لیے میدان میں اترنے پر آمادہ کیا۔ اس قافلہ کو محکوم و مجبور طبقات کی حمایت حاصل ہوئی اور دنیا نے ایک عظیم انقلاب برپا ہوتے دیکھا۔
روس میں تبدیلی کی ابتدا 1905ء سے ہوئی اور آہستہ آہستہ انقلاب کی خواہش پورے ملک کے مزدور پیشہ افراد اور پسے ہوئے طبقات کے دل میں ہمکنے لگی۔ وہ سامراجی حکومت کے خلاف صف آراء ہو گئے جس کے نتیجے میں 1917 سے 1919 کے درمیان میں انقلاب مکمل ہوا۔ روس کے آخری شہنشاہ نکولس دوم تھے جنھیں ان کی بیوی اور پانچ اولادوں سمیت انقلاب کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ 1918 کا واقعہ ہے۔
انسانی سماج میں طبقات میں منقسم ہونے کے بعد سے یہ محنت کشوں کی سب سے فیصلہ کن فتح تھی۔ بالشویکوں نے بادشاہت کے خلاف سماج کی اکثریت کی حاکمیت کو قائم کیا۔ یہ مارکسی روح کے مطابق ایسا انقلاب تھا جس کے بعد محنت کشوں کو اقتدار ملا۔ لینن نے دسمبر 1917ء میں لکھا، ”آج کے اہم ترین فرائض میں یہ شامل ہے کہ محنت کشوں کی آزادانہ پیش قدمی کو پروان چڑھایا جائے۔ اسے ہر ممکن حد تک وسیع کر کے تخلیقی تنظیمی کام میں تبدیل کیا جائے۔ ہمیں ہر قیمت پر اس پرانے، فضول، وحشی اور قابل نفرت عقیدے کو پاش پاش کرنا ہو گا کہ صرف نام نہاد اعلیٰ طبقات، امرا اور امرا کی تعلیم و تربیت پانے والے ہی ریاست کا نظام چلا سکتے ہیں اور سوشلسٹ سماج کو منظم کرسکتے ہیں۔“
انقلاب کے لیے جدوجہد تو بڑے عرصے سے جاری تھی مگر اس کے فوری اثرات پہلی جنگِ عظیم میں روس کی شکست کے بعد ظاہر ہوئے۔ اس سے قبل عوام اگرچہ اپنی محرومیوں اور مشکلات کے خلاف احتجاج کررہے تھے، لیکن زارِ روس کی جانب سے اسے سختی سے کچلا جارہا تھا۔ بادشاہ کے وفادار سپاہی ہر قسم کا ظلم اور جبر روا رکھتے تھے جس نے گویا عوام کے جذبات کو مزید بھڑکا دیا تھا، اور جب جنگِ عظیم میں شکست کے بعد روس میں غربت اور افلاس انتہا کو پہنچا گیا تو عوام نے لینن کی قیادت میں تخت اور تاج چھین کر عوامی حکومت کی بنیاد رکھی۔
لینن نے بادشاہت کا زمانہ اور جبر دیکھا تھا لیکن اس کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے ملک سے باہر گزرا۔ واپسی ہوئی تو اس طرح کہ اس کا ملک انقلاب کے دہانے پر کھڑا تھا اور لینن نے سات برس سے بھی کم عرصہ روس کو انقلاب کا تحفہ دیا۔ لینن دنیا میں سوویت یونین کی بنیاد رکھنے والے ایسے لیڈر بنے جن کا ملک ایک سپر پاور بنا اور سات دہائیوں تک دنیا کی بڑی طاقت کے طور پر پہچانا گیا۔