پی ٹی آئی رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ پیکا قانون بطور ہتھیار استعمال کیا جائے گا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پیکا بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ نہیں ہورہا یہ بل پاکستان کے آزاد شہریوں کے لیے خطرہ ہے۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی کو خط میں عمر ایوب نے بل کے خلاف اختلافی نوٹ بھی لکھا۔
عمر ایوب نے کہا کہ چھپن فیصد پاکستانی انٹرنیٹ سے دور ہیں یا ڈیجیٹل خواندہ نہیں، پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش ہوتی رہی، جس سے نقصان ہوا۔
انہوں نے کہا کہ بل آزادی صحافت اور شہری آزادی پر قدغن ہے، آئی ٹی سے وابستہ محکموں میں غیر متعلقہ افراد کو بھرتی کیا گیا، غیرمتعلقہ افراد کی حساس عہدوں پرتعیناتی خلاف ورزی ہے گزشتہ دورکی مثالیں بھی موجود ہیں۔
عمر ایوب نے کہا کہ پی پی، ایم کیو ایم نے پہلے پیکا بل کی مخالفت اب حمایت کردی ہے۔
قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کا متنازع بل کثرت رائے سے منظور
واضح رہے کہ قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کا متنازع بل کثرتِ رائے سے منظور کرلیا، صحافیوں نے احتجاج کرتے ہوئے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا، متنازع ترمیمی بل رانا تنویرنے پیش کیا۔ فیک نیوز پھیلانے پر تین سال قید یا بیس لاکھ جرمانہ ہوگا۔
نئی شق ون اے کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہوگی، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن، منسوخی اورمعیارات کی مجاز ہوگی، ایکٹ خلاف ورزی پرتادیبی کارروائی کرےگی، اتھارٹی کےنو ارکان ہوں گے۔
حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کونمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، پانچ ارکان میں دس سال تجربہ رکھنے والا صحافی اور سافٹ انجینئر بھی شامل ہوں گے، وکیل اور سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہوگا۔
متنازع ترمیمی بل کے تحت وفاق قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گا، جو سوشل میڈیا پرغیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے گی۔
سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہو گا، تعیناتی تین سال کیلئے ہوگی، اتھارٹی کے افسران اور اہلکاروں کے پاس پولیس افسران کے اختیارات ہوں گے۔ نئی تحقیقاتی ایجنسی قائم ہوتے ہی ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ کو تحلیل کردیا جائے گا۔