جمعہ, جنوری 31, 2025
اشتہار

جب سبطِ حسن نے جیل میں عربی سیکھی!

اشتہار

حیرت انگیز

لاہور کی شادمان کالونی سنٹرل جیل کو مسمار کر کے بنائی گئی۔ سنٹرل جیل کے آخری قیدیوں میں بہت سے سیاسی اور دینی اکابرین شامل تھے۔ مولانا مجاہد الحسینی بھی ان میں شامل تھے۔ اپنے زمانۂ اسیری میں مولانا کی سبطِ حسن سے جیل میں شناسائی ہوئی اور ان میں استاد اور شاگرد کا تعلق بھی بن گیا۔

مولانا مجاہد الحسینی نے نامور ترقی پسند دانش ور، ادیب اور صحافی سید سبطِ حسن سے اپنے اسی تعلق کی یادوں کو قلم بند کیا جس سے ایک پارہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

سید سبطِ حسن بھی سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار دیوانی احاطے میں آگئے تھے۔ وہاں استادی، شاگردی کے ادب و آداب کے تحت اربابِ جیل نے خصوصاً ہمارے لئے چارپائیوں کا انتظام کر دیا تھا، چونکہ رات کے مرحلے میں کسی نئے قیدی کے لئے چارپائی کا فوراً انتظام مشکل تھا، سید سبط حسن ہم زندانیوں میں سے کسی سے بھی متعارف نہیں تھے، مَیں نے ان کی تحریروں مطالعہ کیا تھا، روزنامہ امروز میں ان کے مضامین شریک اشاعت ہوتے رہتے تھے، اس لئے میں نے خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا، اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے میری بابت احمد ندیم قاسمی اور حمید ہاشمی (نواسہ مولانا احمد سعید دہلوی) مدیرانِ امروز سے جو چند اچھے کلمات سنے ہوں گے، ان کے حوالے سے کہا کہ آپ سے غائبانہ تو متعارف تھا، آج ملاقات سے مسرت ہوئی اور وہ بھی جیل خانے میں۔

اس پر میں نے کہا:”دنیا میں جیل ٹھکانہ ہے آزاد منش انسانوں کا“…. مصرع سنتے ہی متانت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا: خوب، اچھا ذوق ہے، پھر میں نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ اور دوسرے بزرگوں سے ان کا تعارف کرایا، تو انہوں نے بھی دعائیہ کلمات کے ساتھ سبط حسن صاحب کا خیر مقدم کیا، اس وقت جیل کے اس مسافر خانے میں جو کچھ میسر تھا، پیش کیا، چائے نوشی کے دوران میں نے فتح دین نامی مشقتی سے سرگوشی کی صورت میں کہا کہ میری چارپائی پر سبط حسن صاحب کا بستر بچھا دو اور میرا بستر گارڈینا کی اوٹ میں زمین پر بچھا دیا جائے، جس کی تعمیل کی گئی۔

بعد ازیں ہم اپنے معمولات و عبادات سے فارغ ہو کر اپنے بستروں کی جانب راغب ہوئے اور سبط حسن صاحب کو ان کی آرام گاہ کی نشان دہی کی گئی تو انہوں نے دیگر حضرات کے ساتھ میری چار پائی مفقود دیکھ کر مشقتی سے دریافت کیا وہ کہاں ہے؟….اس نے گارڈینے کی اوٹ میں، اشارے کے ساتھ نشان دہی کی تو سبط حسن صاحب نے میرے پاس آتے ہی مستعّجب ہو کر کہا: یہ کیا؟

میں نے کہا، میری کمر میں کھنچاؤ محسوس ہوتا ہے، زمین پر لیٹنے سے راحت ملے گی۔ بایں ہمہ، سبط حسن صاحب نے مجھے اپنی چارپائی پر آرام کرنے پر اصرار کیا، مگر میرا عذر غالب آگیا اور میں نے انہیں بازو سے پکڑ کر چارپائی پر بٹھا دیا، چنانچہ حسنِ خُلق کا یہی مظاہرہ میرے اور سید سبط حسن کے درمیان گہرے تعلق خاطر کا موجب بن گیا تھا۔ پھر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل امتیاز نقوی کے ساتھ وہ بھی حصول تعلیم قرآن کی سعادت پر آمادہ ہوگئے تھے، چنانچہ انہیں ابتدائی تعلیم عربی کی چھوٹی کتب سے متعارف کرایا گیا، حتیٰ کہ آیاتِ قرآن کے ترجمے اور بعد ازاں عربی گفتگو میں دسترس اور مہارت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسی دوران میں نے ان سے انگریزی زبان کی تعلیم پانے کا آغاز کیا، جس پر ہم دونوں میں استاد، شاگرد کا تعلق استوار ہوگیا تھا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں