ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم علم و ادب اور فلسفہ کے میدان کی ایک ممتاز شخصیت تھے جو سخن گو بھی تھے اور سخن فہم بھی۔ یہی نہیں بلکہ ان کی ظرافتِ طبع اور بذلہ سنجی بھی مشہور ہے۔ آج خلیفہ عبدالحکیم کی برسی ہے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے خلیفہ عبدالحکیم کو فلسفی، شاعر، نقّاد، محقّق، مترجم کے علاوہ ماہرِ اقبالیات کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی کئی تصانیف اقبال شناسی میں اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ 12 جولائی 1894ء کو لاہور میں ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد پشمینے کا کاروبار کرتے تھے۔ خلیفہ عبدالحکیم نے لاہور سے 1911ء میں میٹرک کرنے کے بعد علی گڑھ سے ایف۔ اے کیا۔ پھر وہ دہلی آگئے اور سینٹ اسٹیفن کالج میں داخلہ لیا۔ وہاں سے 1917ء میں ایم۔ اے کر کے لاہور لوٹے اور تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے لاء کالج سے ایل ایل۔ بی کی ڈگری حاصل کی لیکن باقاعدہ وکالت نہیں کی۔ اگست 1919ء میں علامہ اقبال کی سفارش پر حیدر آباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئے۔ 1922ء میں جرمنی گئے اور 1925ء میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پی ایچ۔ ڈی کرنے کے بعد وہ حیدرآباد دکن واپس آئے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر اور صدرِ شعبہ مقرر ہوگئے۔ 1943ء میں امر سنگھ کالج سرینگر کے پرنسپل ہو کر کشمیر چلے گئے جہاں بعد میں ناظمِ تعلیمات بھی مقرر کیے گئے۔ 1947ء میں مستعفی ہو کر واپس حیدر آباد آگئے جہاں انہیں ڈین آف آرٹس فیکلٹی مقرر کیا گیا۔
حیدرآباد دکن پر ہندوستان کے قبضہ کے بعد 1949ء میں وہ لاہور آگئے۔ فروری 1950ء میں ڈاکٹر صاحب کی کوششوں سے لاہور میں ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ قائم ہوا تو انھیں اس کا پہلا ڈائریکٹر بھی مقرر کیا گیا۔
خلیفہ صاحب نے پاکستان آنے کے بعد جہاں علمی و ادبی مشاغل اور تصنیف و تالیف کا کام کیا وہیں قومی اور بین الا قوامی مذاکروں میں بھی شامل ہوتے رہے اور وہاں انھوں نے اسلامی فکر اور فکرِ اقبال کا پرچار کیا۔ انھوں نے جس موضوع پر بھی لکھا بہت خوب اور معنی خیز انداز میں اپنے مؤقف کو قارئین کے سامنے پیش کیا۔ اقبال ڈے پر ان کے ایک مقالہ کا عنوان تھا، ”اقبال عاشقی کا گناہ گار نہ تھا۔” یہ مقالہ سینٹ ہال میں پڑھا گیا اور لوگ خلیفہ کی معنی آفرینی اور زورِ کلام سے خوب متاثر ہوئے۔ امریکہ اور ایران میں “اسلام میں تصورِ قانون” کے موضوع پر خطبہ اور پہلی بار ایران میں فارسی زبان میں تقریر میں بھی اسلامی فکر اور اقبال کے نظریے کو پیش کیا جس کی بہت تعریف کی گئی۔
خلیفہ عبدالحکیم کی شخصیت ہمہ جہت پہلوؤں سے آراستہ تھی۔ انھوں نے جہاں اقبالیات کو اپنا موضوع تحریر بنایا ہے وہاں اردو اور مغربی ادیبوں کو بھی سراہا ہے۔ تنقید بھی لکھی اور تراجم بھی کیے۔ ان کا اپنا انداز بیان اور اسلوب منفرد اور غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ان کا شمار اہم اقبال شناسوں میں ہوتا ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم نے نہ صرف اقبالیات پر اہم کام کیا ہے بلکہ رومؔی اور غالؔب شناسی پر بھی تصانیف تحریر کیں۔ وہ 30 جنوری 1959ء کو حرکتِ قلب بند ہونے سے وفات پا گئے تھے۔ وہ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
خلیفہ عبدالحکیم کی چند مشہور تصانیف میں نفسیات وارداتِ روحانی، داستانِ دانش، تشبہاتِ رومی، اسلام کی بنیادی حقیقتیں، تلخیصِ خطبات اقبال، افکار غالب، حکمت رومی اور فکر اقبال شامل ہیں۔