اُردو ادب میں ہاجرہ مسرور کا نام ان کی افسانہ نویسی اور عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی اہلِ قلم کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسے گھرانے کی فرد تھیں جس میں علم و ادب کا چرچا تھا۔ ان کی بڑی بہن اردو کی مشہور ادیب خدیجہ مستور تھیں جب کہ بھائی خالد احمد شاعر اور ڈرامہ نگار تھے۔ آج ہاجرہ مسرور کی برسی ہے۔
ہاجرہ مسرور 17 جنوری 1929ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر ظہور احمد خان برطانوی حکومت میں آرمی ڈاکٹر تھے جو دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گئے۔ اس کے بعد والدہ نے خاندان کو سنبھالا اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی۔ یہ پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ ہاجرہ مسرور نے بچپن ہی میں قلم تھام لیا تھا اور ان کے تخلیقی ذہن نے بعد میں کئی خوب صورت کہانیاں اردو ادب کو دیں۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اپنی ہمشیر کے ساتھ پاکستان آ گئی تھیں اور لاہور میں قیام کیا۔ یہاں ہاجرہ مسرور کی کہانیاں ادبی جرائد میں بڑی باقاعدگی سے چھپتی تھیں۔ ادبی حلقوں میں ان کی پہچان بنتی چلی گئی۔ ہاجرہ مسرور غیر روایتی افسانے لکھتی تھیں اور تنازعات کا شکار بھی رہیں۔ مشہور ہے کہ ایک زمانے میں ان کے فیض احمد فیض کے ساتھ اختلافات ہو گئے اور اس کے بعد ان کو ادبی حلقوں کی جانب سے نظر انداز کیا گیا۔ ہاجرہ مسرور نے اپنی وفات سے دو دہائی قبل ہی لکھنا ترک کردیا تھا یا ان کی تخلیقات منظرِ عام پر نہیں آسکی تھیں۔ ان کی شادی معروف صحافی احمد علی خان سے ہوئی تھی جن کی وفات کا ہاجرہ مسرور کو شدید صدمہ پہنچا اور وہ سب سے دور ہوگئی تھیں۔
ہاجرہ مسرور کے گھر میں اخبار اور ادبی جرائد آیا کرتے تھے۔ ان میں ’’ادبی دنیا‘‘، ’’ہمایوں‘‘، ’’ ساقی‘‘،’’ خیام‘‘ اور’’ عالمگیر‘‘ وغیرہ شامل تھے جو ان کے ادبی ذوق کی تسکین کا سامان کرتے اور انھیں لکھنے کی تحریک دیتے تھے۔ جب وہ ممبئی میں تھیں تو ان کے دو افسانوی مجموعے وہاں شائع ہوگئے تھے۔ پاکستان میں ہاجرہ مسرور کے چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔ ہاجرہ مسرور نے سادہ مگر مؤثر نثر تحریر کی۔ ان کے استعارے اور کردار نگاری کے علاوہ ان کا ایک وصف اثر انگیز اندازِ بیاں تھا۔ ان کی اکثر کہانیاں 50 اور 60 کی دہائی میں لکھی گئیں۔
1962ء میں مجلس ترقی ادب نے ہاجرہ مسرور کو ’’رائٹر آف دی ایئر‘‘ ایوارڈ دیا۔ یہ ایوارڈ انہیں ان کے ایک ایکٹ کے ڈراموں کے مجموعے ’’وہ لوگ‘‘ پر دیا گیا۔ ان کے ڈراموں کے مجموعوں کے دیباچے فیض احمد فیض اور امتیاز علی تاج نے تحریر کیے تھے۔ ہاجرہ مسرور نے 60 کی دہائی میں ایک فلم کا اسکرپٹ بھی لکھا۔ فلم کے لیے اس واحد اسکرپٹ پر انہیں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ہاجرہ مسرور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا اور اپنے اصولوں پر ہمیشہ قائم رہیں۔ انہیں 1995ء میں تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ان کے دیگر افسانوی مجموعوں میں’’چاند کی دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری، چھپے، ہائے اللہ، چرکے، وہ لوگ‘‘ اور ’’طمع‘‘ شامل ہیں۔
ہاجرہ مسرور 15 ستمبر 2012ء کو 82 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئی تھیں۔