اشتہار

پروفیسر احمد علی: پیارا آدمی، نڈر ادیب اور ساٹھ فی صد چینی!

اشتہار

حیرت انگیز

پروفیسر احمد علی پاکستان کے معروف ادیب، نقّاد اور دانش وَر تھے جنھوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں مختلف اہم موضوعات پر کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ پروفیسر احمد علی نے قرآن پاک کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔

اردو دنیا کے ممتاز شاعر، ادیب اور جیّد صحافی چراغ حسن حسرت بھی پروفیسر احمد علی کے بے تکلف دوستوں میں شامل تھے۔ ان قد آور شخصیات کی نوک جھونک اور آپس میں ہنسی مذاق بھی بڑا لطف دیتی ہے۔ پروفیسر صاحب کی شکل و صورت پر حسرت نے ایک موقع کی مناسبت سے بڑی دل چسپ بات کی تھی جسے اردو کے نام وَر مزاح گو شاعر ضمیر جعفری نے رقم کیا ہے۔ آج پروفیسر احمد علی کی برسی پر یہ قصّہ مرحوم کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

"مرشد (ضمیر جعفری چراغ حسن حسرت کو مرشد کہتے تھے) کے دوست مشہور ادیب پروفیسر احمد علی ہندوستان سے چین جا رہے تھے۔ ان کا جہاز شب کے چند گھنٹوں کے لیے سنگا پور میں رک رہا تھا۔ مرشد ایک مدت سے ان کی راہ تک رہے تھے اور ان کے چند گھنٹوں کے قیام کو پُرلطف بنانے کے لیے کوئی پورے تین شب و روز کی مصروفیت طے کر چھوڑی تھی۔

- Advertisement -

لیکن اتفاق دیکھیے کہ جس شام احمد علی وہاں پہنچے ہیں، مرشد کو سو کر جاگنے، جاگ کر اٹھنے، اٹھ کر تیار ہونے اور پھر دو تین ساغر برائے ملاقات پینے میں اتنی دیر ہوگئی کہ جب ہم لوگ جہاز پر پہنچے تو پروفیسر صاحب شہر کی گشت پر نکل چکے تھے۔ اب انھیں ڈھونڈھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جاوید نے کہا کہ اتنے بڑے اجنبی، پُراسرار شہر میں اندھا دھند تلاش سے کون مل سکتا ہے۔ لیکن مرشد بہت پُرامید تھے۔

فرمایا۔ ‘‘کیوں نہیں ملے گا۔ مجھے معلوم ہے احمد علی کو کہاں ہونا چاہیے۔ میرے بھائی میں احمد علی کو جانتا ہوں۔’’ تلاش شروع ہوئی تو احمد علی کو جہاں جہاں ہونا چاہیے تھا، ایک ایک مقام پر چھان مارا مگر وہ خدا معلوم کہاں غائب ہوگئے تھے۔

کوئی بارہ بجے کے قریب مرشد یہ کہہ کر کہ ذرا تازہ دم ہوکر ابھی پھر نکلتے ہیں، ایک چینی ریسٹورنٹ میں گھس گئے اور وہاں جام و مینا سے نہ معلوم کیا سرگوشیاں ہوئی کہ خیالات کا دھارا احمد علی کو پا سکنے کی رجائیت کی طرف سے یک بارگی احمد علی کو نہ پا سکنے کی قنوطیت کی طرف مڑ گیا۔ بولے:

‘‘مولانا یہ احمد علی تو ملتا دکھائی نہیں دیتا۔’’

‘‘کیوں؟’’ہم نے پوچھا۔

‘‘مولانا چینیوں کے اس شہر میں احمد علی کا ملنا ناممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ سامنے کے رخ سے احمد علی بھی ساٹھ فی صدی چینی معلوم ہوتا ہے اور چینیوں کے انبوہ میں کسی چینی سے آپ خط کتابت تو کرسکتے ہیں، اسے شناخت نہیں کرسکتے۔ اب اس کو جہاز پر ہی پکڑیں گے۔’’

پھر وہیں بیٹھے بیٹھے مرشد نے جو احمد علی کی باتیں شرع کی ہیں کہ وہ کتنا پیارا آدمی ہے، کتنا نڈر ادیب ہے، کتنا قیمتی دوست ہے تو درمیان میں ہماری وقفہ بہ وقفہ یاد دہانیوں کے بعد جب ریستواراں سے اٹھ کر آخر جہاز پر پہنچے تو جہاز ہانگ کانگ کو روانہ ہوچکا تھا۔

بعد میں خط کتابت سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب نے بھی اس شب اپنے آپ کو سنگا پور پر چھوڑ رکھا تھا۔

اردو اور انگریزی زبان کے معروف افسانہ اور ناول نگار، نقّاد، مترجم پروفیسر احمد علی 14 جنوری 1994ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق دہلی سے تھا۔ 1910ء میں پیدا ہونے والے پروفیسر احمد علی نے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ ان کا ایک افسانہ، اردو افسانوں کے مشہور اور متنازع مجموعے انگارے میں بھی شامل تھا۔ افسانوں کے اس مجموعے کی مزید اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

پروفیسر احمد علی کی تصانیف میں ہماری گلی، شعلے اور قید خانہ کے علاوہ انگریزی زبان میں لکھی گئیں Muslim China، Ocean of Night، The Golden Tradition، Twilight in Delhi اور Of Rats and Diplomats شامل ہیں۔ انھوں نے انگریزی زبان میں ناول کے علاوہ کئی موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے پروفیسر احمد علی کو ستارۂ قائداعظم عطا کیا گیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں