تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

‘شامِ اودھ’ کے خالق ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا تذکرہ

اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اپنا زورِ قلم منوانے والوں میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی ایک اہم نام ہیں۔ وہ نقّاد، افسانہ اور ناول نگار کی حیثیت سے معروف ہوئے۔ 1978ء میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے آج ہی کے دن اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا۔ آج ان کی برسی ہے۔

متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی 22 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام نواب محمد حسن خاں تھا۔ محمد احسن فاروقی کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے لیے والد نے ایک انگریز اتالیق کی خدمات حاصل کی تھیں۔ 1929ء میں انھوں نے کوئنس اینگلو سنسکرت ہائی اسکول لکھنؤ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ لکھنؤ کے کرسچین کالج سے ایف اے کیا اور 1933ء میں جامعہ لکھنؤ سے بی اے کے بعد 1946ء کو انگریزی میں ایم اے کیا۔بعد میں انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کیا۔ اپنے انگریزی زبان کے ذوق و شوق کی وجہ سے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے انھوں نے ’’رومانوی شاعروں پر ملٹن کے اثرات‘‘ کا موضوع چنا۔ جامعہ سے سند یافتہ احسن فاروقی قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی آ بسے۔ پاکستان میں انھوں نے جامعہ کراچی، سندھ یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی سے وابستگی کے دوران نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کا فریضہ بحسن و خوبی نبھایا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ بھی مشغول رہے۔ انگریزی زبان و ادب کے علاوہ انھیں جرمن اور فرانسیسی زبانوں‌ پر بھی عبور حاصل تھا۔ محمد احسن فاروقی ایک بلند پایہ ادیب اور نقّاد بھی تھے اور اردو کے علاوہ فارسی اور عربی زبانوں سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ زبان و بیان پر عبور اور ان کے وسیع مطالعہ نے ان کی تحریروں کو بھی خوب چمکایا اور اسی سبب ان کی تخلیقات اور مضامین میں مختلف ادبیات کے رجحانات اور میلانات کا سراغ ملتا ہے۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان کا علمی و ادبی کام ان کی فکر کے تنوع اور گہرائی کا بھی مظہر ہے۔

اردو زبان کی بات کی جائے تو محمد احسن فاروقی کو صفِ اوّل کے ناقدین میں شمار کیا گیا۔ اردو میں ان کی یادگار کتابوں میں ‘اردو ناول کی تنقیدی تاریخ، ناول کیا ہے، ادبی تخلیق اور ناول، میر انیس اور مرثیہ نگاری اور تاریخِ انگریزی ادب’ سرفہرست ہیں۔ آخر الذّکر کتاب ان کا بڑا کارنامہ ہے۔

ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے افسانہ نگاری بھی کی اور ناول جیسی صنفِ ادب میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار اور اپنے زورِ قلم کو آزمایا۔ ان کے ناولوں میں شامِ اودھ، آبلہ دل کا، سنگِ گراں اور سنگم شامل ہیں جب کہ افسانوں کا مجموعہ رہِ رسمِ آشنائی کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ شامِ اودھ ان کا وہ ناول ہے جو علمی و ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس ناول میں اودھ کے مٹتے ہوئے تمدن کی نہایت کام یاب جھلک پیش کی گئی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کوئٹہ میں موجود تھے جہاں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ انھیں کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

Comments

- Advertisement -