تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

امریکا : وہ ملک جہاں خواتین سے انتہائی درجے کی بدسلوکی کی جاتی

مغربی معاشرے میں خواتین کو روزگار اور دیگر شعبوں میں زیادہ مواقع میسر ہیں، وہ چاہیں تو اپنی مرضی سے دن یا رات کی نوکری بھی کرسکتی ہیں اس لیے وہ ماضی کی نسبت موجودہ دور میں زیادہ آزاد ہیں۔

ایسا نہیں کہ مغربی ممالک میں مکمل طور پر خواتین کو ہر قسم کی آزادی ملی ہوئی ہے، تاہم اس آزادی کے پیچھے بہت سے اندوہناک واقعات اور قربانیاں ہیں جن کی بدولت خواتین اپنی مرضی کی زندگی گزار رہی ہے۔

ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب انسانی حقوق کے علمبردار ملک امریکا میں خواتین سے ناروا سلوک روا رکھا جاتا تھا، ان کے کردار پر شک کرتے ہوئے حراست میں لیا جاتا، زبردستی طبی معائنہ کرکے انہیں قیدیوں کی طرح رکھا جاتا تھا۔

امریکی ویب سائٹ ہسٹری ڈاٹ کام کے مطابق امریکی تاریخ میں خواتین پر زبردستی اور جبر کا یہ مخصوص دور نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط تھا۔

امریکی حکومت نے 1910 کی دہائی میں پہلی جنگ عظیم کے دوران ’امریکی پلان‘ متعارف کروایا تھا جس کے تحت ہزاروں کی تعداد میں خواتین کو حراست میں لیا گیا۔

یہ منصوبہ کچھ ریاستوں میں 1950 کی دہائی تک نافذالعمل رہا جبکہ کچھ مقامات پر 1960 اور 1970 کی دہائی تک چلتا رہا۔  رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کا مقصد خواتین کو گرفتار کرکے فوجیوں میں پھیلی ہوئی جنسی بیماریوں پر قابو پانا تھا۔

سال 1917 میں وفاقی افسران حیران اور خوفزدہ ہو کر رہ گئے تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ امریکی فوج میں اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد جنسی تعلقات سے پھیلنے والی بیماریوں گونوریا یا سیفیلس سے متاثر ہیں۔ یہ بیماریاں نہ صرف فوجیوں کی صحت بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ تھیں۔

اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے ایک قانون نافذ کیا گیا جس کے تحت ملک بھر میں قائم فوجی تربیتی کیمپوں کے اطراف میں پانچ میل تک جسم فروشی کو ممنوع قرار دیا گیا اور اس علاقے کو ’مورل‘ یعنی ’اخلاقی زون‘ قرار دیا گیا۔

لیکن جب وفاقی عہدیداروں کو معلوم ہوا کہ اکثر فوجی اہلکار تو جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں (ایس ٹی آئی) سے دوران چھٹی اپنے آبائی شہروں میں متاثر ہوئے تو انہوں نے قانون کا دائرہ کار پورے ملک تک بڑھا دیا۔

اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ مردوں میں جراثیم پھیلانے والی اکثر خواتین پیشہ وارانہ طور پر جسم فروش نہیں ہیں تو انہوں نے امریکی منصوبے کا دائرہ کار مزید وسیع کردیا۔

امریکی پلان کہلانے والے اس قانون کے تحت سال 1919 میں ریاست کیلی فورنیا کے شہر سیکرامینٹو میں ایک دن میں درجنوں خواتین کو حراست میں لیا گیا تھا۔

مارگریٹ ہینسے اِن خواتین میں سے ایک تھیں جنہیں 25 فروری کی صبح کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنی بہن کے ساتھ پیدل گوشت خریدنے جا رہی تھیں۔

جیسے ہی یہ خواتین مارکیٹ کے قریب پہنچیں تو رائن نامی پولیس افسر اور ’مارل‘ یعنی ’اخلاقی اسکواڈ‘ کے ممبران ان کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ ’مشتبہ‘ ہونے کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔

’مارل اسکواڈ‘ کے نام سے ایک یونٹ اِسی صبح قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد شہر کو برائی اور غیر اخلاقی کاموں سے پاک کرنا تھا۔

مارگریٹ ہینسے نے ان پولیس افسران کو بتانے کی کوشش کی کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کا چھ سال کا بیٹا کونوینٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے اور اگر انہیں گرفتار کر لیا تو بیٹے کی کون دیکھ بھال کرے گا۔

مارگریٹ نے بعد میں پریس کو بتایا تھا کہ پولیس افسران بغیر بات سنے انہیں اور ان کی بہن کو ہسپتال لے گئے تھے۔ وہاں ڈاکٹر نے ممکنہ جنسی بیماری سے متاثر ہونے پر ان خواتین کا زبردستی معائنہ کیا لیکن منفی ٹیسٹ رپورٹ نے پولیس کے شکوک و شہبات کو غلط ثابت کر دیا تھا۔

مارگریٹ کا کہنا تھا کہ زندگی میں کبھی بھی انہیں اس قدر شرمندہ نہیں کیا گیا اور وہ اپنی ساکھ کے تحفظ کی لڑائی لڑیں گی۔

اگر کسی خاتون کا جنسی بیماریوں کے لیے کیا گیا ٹیسٹ مثبت آتا تو انہیں بغیر قانونی کارروائی کیے کئی دن یا کئی ماہ تک قید میں رکھا جاتا تھا۔

دوران قید ان خواتین کو مرکری کا انجیکشن لگایا جاتا یا پھر آرزینک کی ادویات زبردستی دی جاتیں جو اس وقت سیفیلس کا عام علاج سمجھا جاتا تھا۔ مزاحمت کی صورت میں ان خواتین کو مارا پیٹا جاتا، ان پر ٹھنڈا پانی پھینکا جاتا، قید تنہائی میں رکھا جاتا، یہاں تک کہ ان کی نس بندی کی جاتی۔

اکثر خواتین نے یہ بھی شکایت کی کہ پولیس افسران کے ساتھ جنسی عمل سے انکار پر بھی انہیں حراست میں لیا جاتا۔ بالخصوص تارکین وطن اور سیاہ فام خواتین کے ساتھ دوران حراست اعلیٰ درجے کی بدسلوکی کی جاتی۔

امریکی پلان کو اعلیٰ عہدیداروں کی بھی حمایت حاصل تھی، ریاست نیویارک کے میئر فیوریلو گارڈیا پلان کے حق میں تعریفی تقاریر کرتے تھے، اسی طرح سے کیلی فورنیا کے گورنر ارل وارن نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اس کو نافذ کروایا۔

سال 1918 میں اٹارنی جنرل نے ذاتی حیثیت میں ہر امریکی اٹارنی کو خط لکھ کر یقین دہانی کروائی کہ اس قانون کو آئینی حیثیت حاصل ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ہر امریکی ڈسٹرکٹ جج کو بھی خط لکھا کہ اس قانون کے نفاذ میں دخل اندازی نہ کی جائے۔

بالآخر امریکہ میں شہری حقوق اور خواتین کے حقوق کی تحاریک کے آغاز کے بعد 1970 کی دہائی میں امریکی پلان اپنے منتقی انجام کو پہنچا اور اس کے تحت ہونے والا خواتین کا استحصال بند ہوا۔

Comments

- Advertisement -