تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

تقسیم کی ادھوری کہانی – امرت کور

وہ اپریل کے آخری دن کی ایک صبح تھی ۔ جب میں اور بھان سنگھ امرتسر ایئر پورٹ سے ضروری کاغذی کارروائی کے بعد باہر آئے۔ ہم ائیر پورٹ عمارت میں کھڑے تھے اور سامان کا انتظار کر رہے تھے۔ وہاں ہر طرف مختلف رنگوں کی پگڑیوں والے سنگھ حضرات دیکھ کر ایک دم سے مجھے لاہور اسٹیشن یاد آگیا۔ اکثر سکھ یاتریوں کو وہاں دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ویسا ہی ماحول مجھے یہاں بھی لگا۔گورمکھی اور انگریزی میں لکھے ہوئے سائن بورڈ کے علاوہ مجھے وہاں قطعاً اجنبیت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ شاید یہ پنجاب کی ہواؤں کا اثر تھا۔ میں اردگرد کے ماحول سے اپنے اندر اٹھنے والے تاثرات میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک ہمارے سامنے ایک جواں سال لڑکی آن کھڑی ہوئی۔ سرمئی رنگ کی شلوار قمیص پہنے، جس کے ہاف سلیو میں سے گوری بانہیں اور زرد چوڑیاں اپنی جانب متوجہ کر رہی تھیں۔ تیکھے نقوش والی اس لڑکی کے چہرے پر خوشی پھوٹ رہی تھی۔ اس کا آنچل گلے میں تھا اور وہ پُرشوق نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی بھان سنگھ خوشی سے بولا۔
”اوئے بلے بلے…. آگئی پرتیو“۔ پھر میری طرف دیکھ کر تعارف کراتے ہوئے بولا۔ ”اس سے ملو، یہ ہے میری منگیتر پریت کور“۔
”اچھا تو یہ ہے اپنی پریتو….!“ میں نے خوشگوار انداز میں کہا تو وہ کافی حد تک شرماتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑ کر بولی۔
”ست سری اکال…. اور خوش آمدید، بہت خوشی ہوئی آپ کو یہاں دیکھ کر۔ ورنہ صرف بھان ہی سے آپ کے بارے میں سنتی تھی“۔
”میں نے بھی اس سے تمہاری بڑی باتیں سنی ہیں، بہت پیار کرتا ہے تمہیں“۔ میں نے اس کے چہرے پر بکھرتے ہوئے رنگوں کو دیکھ کر کہا تو وہ ایک دم سے شرما گئی۔ پھر بھان کی طرف دیکھ کر بولی۔
”اب کھڑے کیوں ہو، چلتے کیوں نہیں“۔
”اوئے سو ہنیو….! سامان لے لیں۔ یاا نہیں ہی دے جانا ہے“۔ بھان نے اندر کی طر ف دیکھتے ہوئے کہا پھر اس سے مخاطب ہو کر بولا۔ ”پر تو اکیلی کیوں آگئی۔ تیرے ساتھ کوئی اور نہیں آیا“۔


اس ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


”بتا، کس نے آنا تھا، تیری بے بے باپو نے یا میری بے بے باپو نے…. وہ وہاں تیرے گھر میں اکٹھے ہو کر تیرا انتظار کر رہے ہیں“۔
بھان سنگھ اسے کوئی جواب نہ دے سکا۔ بلکہ اس پورٹر کی طرف متوجہ ہو گیا جو ہمارا سامان لے آیا تھا۔ ہم نے سامان لیا اور عمارت سے باہر آگئے۔ پریت کور ہمارے آگے آگے جارہی تھی۔ پھر ایک فور وہیل جیپ کے پاس رک گئی۔ اسے کھولا تو ہم نے سامان رکھا۔ تبھی وہ پچھلی نشست پر بیٹھنے لگی۔
”نا پریت….! تو ادھر بھان کے ساتھ پسنجر سیٹ پر بیٹھ، اتنے عرصے بعد وہ واپس آیا ہے۔ گپ شپ لگا اس کے ساتھ میں ادھر….“
”میں روز گپ لگاتی ہوں اس کے ساتھ ، آپ بیٹھو“۔ یہ کہتے ہوئے اس نے چابی بھان سنگھ کی طرف اچھال دی۔ اس نے پکڑی اور ڈرائیونگ پر جا بیٹھا۔ ائیرپورٹ سے نکل کر جب ہم کشمیر روڈ پر آگئے تو بھان سنگھ نے پوچھا۔
”اوئے پرتیو….! سنا امرت کور کیسی ہے؟“
”ٹھیک ہے وہ، اسے کیا ہونا ہے، آج کل اس نے نیا ڈرامہ شروع کیا ہوا ہے“۔ وہ یوں بولی جیسے یہ اس کے لیے غیر دلچسپ سی بات ہو۔
”وہ کیا ہے؟“ بھان سنگھ نے تجسس سے پوچھا۔
”کوئی دو ہفتے ہوئے ہیں، اپنے گھر سے کوئی نہ کوئی میٹھی شے لے کر نکلتی ہے۔ اسے اپنے ساتھ رکھتی ہے، پھر گرو دوارے کے باہر بچوں میں بانٹ دیتی ہے۔ خوشی خوشی گھر چلی جاتی ہے“۔ وہ اپنی رو میں کہتی چلی گئی مگر میں اپنے طور پر چونک گیا۔ کوئی دو ہفتے پہلے ہی تو ہم میں بات ہوئی تھی۔ کیا یہ ہماری وجہ سے ہوا؟ اگر ایسا ہے تو یہ کیسے ہوا؟ میں اس نہج پر سوچنے لگا۔ مجھے اس کی کوئی منطق سمجھ میں نہ آئی تو خود پر ہنس دیا۔ میں نے یونہی خواہ مخواہ امرت کور کو اپنے ذہن پر سوار کر لیا تھا۔ یہ ایسے اتفاق ہی ہو گا جو میں اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں خاموش تھا اور وہ دونوں باتیں کرتے جارہے تھے۔ بھان سنگھ اور پریت کور دونوں کزن تھے۔ چاچے تائے کی اولاد، دونوں ہی اکلوتے تھے۔ ان دونوں کے والدین میں یہ طے ہو چکا تھا کہ ان کی شادی کر دی جائے گی۔ اس لیے وہ ایک دوسرے سے خاصے بے تکلف تھے۔ تبھی ایک خیال میرے ذہن میں آگیا کہ بھان سنگھ نے پریت کور کو میرے بارے میں ضرور بتا دیا ہو گا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں۔ یاممکن ہے نہ بتایا ہو۔ سو خاموشی ہی ٹھیک تھی۔
تقریباً پچیس منٹ کے سفر کے بعد وہ بڑی سڑک پر سے ایک ذیلی سڑک پر مڑ گیا اور اس کے ساتھ ہی خوشی سے لبریز لہجے میں بولا۔
”لے بھئی بلال….! آگئے اپنے گاؤں وہ دیکھ سامنے“۔
میں نے دیکھا سامنے کچھ فاصلے پر گاؤں نظر آرہا تھا۔ وہ خاصا بڑا گاؤں تھا۔ ان میں ایک بھی گھر مجھے کچا دیکھنے کو نہیں ملا۔ ممکن ہے کوئی ہو۔ تاہم اردگرد کی زرخیز فصلوں سے میں ہی اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس گاؤں کے لوگ خوشحال ہوں گے۔ اس گاؤں میں سب سے اونچا ایک مینار نما برج تھا جو دور ہی سے دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے اس کے بارے میں پوچھا۔
”وہ گرو دوارہ ہے…. سنت ہردوار جی کی یاد میں بنایا ہے۔ امرت کور یہیں روزانہ آتی ہے۔ ابھی ہم اس کے قریب ہی سے گزر کر جائیں گے“۔ بھان سنگھ نے عام سے انداز میں کہا تو پریت کور تیزی سے بولی۔
”ویسے بلال….! آپ کا آنا سر آنکھوں پر، ہمیں خوشی ہے کہ آ پ آئے، گرو کی مہر ہوتی ہے کوئی مہمان گھر میں آئے، لیکن یہ جس وجہ سے آپ کو یہاں لے کر آیا ہے نا…. مجھے کوئی یقین نہیں ہے اس پر“۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، وہ تیزی سے بولا۔
”یار پریت بات سن….! تمہیں یقین نہیں ہے تو نہ سہی۔ پر یہ یاد رکھ، یقین کامل ہوتا ہے ، پیر کامل نہیں ہوتا“۔
”پر وہ کون سی سادھو سنت ہے پاگل عورت ہے“۔ وہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔
”اچھا ایک بات سن ، یہ بات میں نے تمہیں بتائی ہے۔ تم نے گھر والوں سے تو نہیں کی“۔ بھان سنگھ نے تشویش سے پوچھا۔
”نہیں، میں ایسی فضول بات نہیں کرتی، بلال کا سارا تاثر ہی ختم ہوتا، میں بھی تم سے یہ کہنے والی تھی، تم بھی ایسی کوئی بات نہ کرنا“۔پریت نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ میں ان دنوں کی باتوں سے بہت کچھ اخذ کر چکا تھا اور اس وقت میرے ذہن میں یہی خیال آرہا تھا کہ بھان سنگھ نے محض میرا دھیان زویا سے ہٹانے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے۔مجھے بھان سنگھ پر غصے کی بجائےپیار آنے لگا تھا۔ میں مسکرا دیا۔ اس وقت ہم گاؤں میں داخل ہو چکے تھے۔
پھر چند گلیاں پار کرنے کے بعد وہ ایک بڑی ساری حویلی نما گھر کے پھاٹک کے اندر گاڑی لے گیا اور پھر بڑے صحن میں ایک طرف گاڑ ی روک دی۔
برآمدے میں گھر کے افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم دونوں آگے بڑھے، ہمارے پیچھے پریتو تھی۔ وہاں پانچ افراد تھے۔ جیسے ہی ہم ان کے قریب پہنچے ، بھان سنگھ ایک درمیان سے بدن والے لمبے قد کے ادھیڑ عمر شخص کے قدموں میں جھکا، اس نے جلدی سے بھان کو سینے سے لگا لیا۔ پھر وہ قریب کھڑے ایک موٹے سے شخص کے قدموں جھکا اس نے بھی بھان کو گلے لگا لیا۔ وہیں اور پتلی سی خواتین تھیں، وہ ان کے قدموں میں لگا، پھر قریب ہی چوکی پر
بوڑھی خاتون کے پاس گیا اور اسے پیار سے ملا۔ ان سب سے ملنے کے بعد میری طرف متوجہ ہوا۔ جس ترتیب سے وہ ان کے ساتھ ملا تھا ویسے ہی تعارف کراتا گیا۔


دوام – مکمل ناول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


”یہ میرے باپو جی ہیں، سردار پردیب سنگھ جی“۔ اس نے کہا تو میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے نہ صرف مصافحہ کیا بلکہ مجھے گلے لگا لیا۔ تبھی وہ بولا۔ ”اور یہ میرے چا چا جی سردار امریک سنگھ جی“۔ میں نے مصافحہ کیا تو انہوں نے بھی ایسے ہی گلے لگا لیا۔ ”یہ میری ماں جی اور یہ میر ی چا چی“۔ ان خواتین نے بھی باری باری میرے سر پر ہاتھ پھیر اور بڑے پیار سے اپنے ساتھ لگا کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ”اور یہ ہے میری دادی پرونت
کور…. ہمارے گھر کی سب سے بڑی….“میں ان کے پاس گیا وہ میری طرف بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں۔ شاید ان کی نگاہ کمزور تھی، لیکن نہیں ، بات یہ نہیں تھی، وہ میری طرف یوں دیکھ رہی تھیں جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کر ہی ہوں، ان کے چہرے پر تعجب، حقیقت اور تجسس کے ملے جلے آثار تھے، جنہیں دیکھ کر میں چند لمحوں کے لیے الجھا تو سہی، لیکن پھر یہی سوچ کر اس الجھن کو خود سے دور کر دیا کہ ممکن ہے انہوں نے میری تصویر دیکھی ہو، بھان سنگھ نے لاتعداد تصویریں اپنے گھر میں بھجوا ئی تھیں۔ پرونت کور کی نگاہ مجھ میں ہی تھی۔ میں ان سب کے ساتھ وہیں کرسیوں پر بیٹھ گیا۔ جبکہ دونوں خواتین اندر چلی گئیں۔
”یہ میرا دوست ہے بلال، ہم اکٹھے ہی بریڈ فورڈ میں پڑھے ہیں۔ اب یہ پاکستان جا رہا تھا تو میں اسے اپنا گاؤں دکھانے کے لیے اپنے ساتھ لے آیا۔ دو چار دن کے بعد….“ وہ کہہ رہا تھا کہ پردیب سنگھ نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”او نہ پتر اوئے….! دو چار دن نہیں، دو چار ہفتوں کی بات کر…. اب قسمت سے ہمارا مہمان بنا ہے، پھر پتہ نہیں یہاں آبھی سکے گا یا نہیں“۔
”وہ کچھ ویزے کا مسئلہ بھی ہو گا ۔ ابھی تو یہاں چوکی میں اس کے آنے کی اطلاع کرنی ہے“۔ بھان سنگھ نے کہا۔
” وہ میں تھانے دار کو بلوا کر کہہ دوں گا۔ بہر حال جب تک پتر بلال کا دل کرے یہاں رہے۔ مہمان تو رب کی مہربانی ہوتے ہیں“۔ ان باتوں کے بعد وہ ہماری پڑھائی، لندن کا ماحول،گاؤں کی باتیں کرنے میں مشغول ہو گئے۔
اس دوران وہ دونوں خواتین ہمارے سامنے چائے کے ساتھ بسکٹ، حلوے اور نہ جانے کیا کیا رکھ دیا۔ سب کچھ بہت مزے کا تھا۔ تبھی انیت کور بولیں۔
”اچھا پتر….! اب تم دونوں آرام کرو، اتنا سفر کر کے آئے ہو۔ میں تم لوگوں کے لیے کھانا بتاتی ہوں“۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولیں۔ ”پتر بلال ….! آج تو تمہیں یہاں گوشت نہیں مل سکے گا۔ یہاں کوئی مسلمان گھرانہ تو ہے نہیں جو وہ تم لوگوں کے طریقے کے مطابق گوشت بنائیں۔ تم بنا لینا۔ میں تمہیں پکادوں گی۔ باقی گاؤں کی جو چیزکہو گے وہ مل جائے گی۔ اپنی پسند بنا دینا“۔
”ماں….! آپ جو بھی بنا کر کھلائیں گی، میں وہ شوق سے کھالوں گا۔ بہت عرصہ ہو گیا ماں کے ہاتھ کا بنا کھانا نہیں کھایا“۔
میں نے یونہی جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔ ان کا گھر دیکھ کر مجھے اپنے شدت سے یاد آنے لگے تھے۔
”ماں صدقے جائے، جو کہے گا میں اپنے پتر کو کھلاؤں گی۔ جاؤ اب آرام کرو، جا بھان لے جااسے اپنے کمرے میں“۔ انیت کور نے صدقے واری جاتے ہوئے کہا۔
ہم دونوں وہاں سے اٹھے اور کمرے کی جانب چل دیئے۔ وہاں بیٹھے ہوئے ایک بات میں نے خاص طور پر نوٹ کی تھی۔ پرونت کور مسلسل میری طرف دیکھتی رہی تھی۔ وہ جو حیرت، تعجب اور تجسس میں نے ان کے چہرے پر دیکھا، وہ ذرا بھی کم نہیں ہوا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ جب تک میں وہاں سے ہٹ نہیں گیا۔ ان کی نگاہ مجھ میں ہی رہی تھی۔ اب پتہ نہیں وہ کیا سوچ رہی تھیں۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والی منزل پر موجود ایک کشادہ کمرے میں آ گئے تھے۔ جہاں ایک طرف کھڑکی سے گاؤں کے گھر اور پھر اس سے آگے کھیت کھلیان دکھائی دے رہے تھے۔”اس طرف کی زمینیں ہماری ہیں، شام کو ادھر چلیں گے“۔
”وہ تو ٹھیک ہے یار، امرت کور سے کب ملیں گے“۔ میں اپنے اندر کے تجسس پر قابو نہ رکھ سکا۔
”لو یار اس سے بھی مل لیں گے۔ فی الحال تو ایزی ہو اور سو جا۔ اس وقت وہ گرودوارے میں ہو گی، یا چلی گئی ہو گی۔ کل صبح صبح اس کے لیے نکلیں گے“۔ بھان سنگھ نے گاؤں میں آ کر بھی ایک دن انتظار کا علان سنا دیا۔ اس پر میں خاموش رہا۔ پھر ایزی ہو کر بستر جا لیٹا۔ کچھ دیر بعد مجھے ہوش نہ رہا کہ میں کہاں ہوں۔
دوپہر کے بعدایک بڑا سارا دستر خوان زمین پر بچھا دیا گیا ۔ اس پر گھر کے سبھی افراد بیٹھے ہو ئے تھے۔ درمیان میں کھانا رکھا ہوا تھا۔ ہمارے بیٹھتے ہی چا چی جسمیت کور نے کھاناسرو کیا۔ پرتیو بالکل ہمارے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔
پرونت کور کے چہرے پر اب بھی تجسس، تعجب اور حیرت تھی لیکن بہت حد تک کم ہو چکی تھی۔ جس پر میں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔ نہ جانے وہ اپنے دماغ میں کیا لے بیٹھی ہوئی ہیں۔ اس وقت میرے ذہن میں یہی تھا کہ یہ بوڑھی پرونت کور تقسیم ہند کے وقت بلاشبہ جوان ہوں گی اور اس وقت کے لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بے انتہا نفرت تھی۔ یہ نفرت کیوں تھی اور کس نے پیدا کی، مجھے اس سے سروکار تو نہیں تھا، لیکن یہ
حقیقت کہ اس نفرت کے شاخسا نے میں مہاجرین کے لیے پاکستان پہنچ جانا آگ کا دریا عبور کرنے کے مترادف ہو گیا تھا۔ میں نے اپنے دادا جی سے بہت ساری باتیں سنی تھیں۔ وہ بھی ہجرت کر کے ہی پاکستان پہنچے تھے۔ انہوں نے جو بتایا تھا، اگر میرے ذہن میں بھی ویسا ہی کچھ تازہ ہو جاتا تو میں اس سکھ گھرانے کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تو کیا، ان کے ساتھ بات کرنا بھی مناسب نہ سمجھتا، ممکن ہے پرونت کور کے دماغ میں وہی نفرت کلبلا رہی ہو۔ اسے میرا
وجود اس گھر میں بہت برا لگ رہا ہو۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اس کے مذہبی عقائد ایسے کٹڑ قسم کے ہوں کہ وہ ایک مسلم کو اپنے گھر میں برداشت نہ کر پار ہی تھی۔ ایسے ہی کئی خیال میرے دماغ میں آتے چلے گئے۔ کھانا بہت اچھا اور لذیذ تھا۔ گوشت کے علاوہ وہاں دال اور سبزیوں سے بنائی گئی ڈشیں، حلوے اور کھیر نہ جانے کیا کچھ تھا۔ تاہم اس کھانے کی لذت کو پرونت کور کی نگاہیں کرکرا کر رہی تھیں۔ بھان اپنے گھر والوں سے گپ شپ کرنے لگا تو میں
وہاں سے اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔ تاکہ وہ اپنے گھر کی باتیں کھل کرسکیں۔ میں بیڈ پر لیٹا تو مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب نیند نے غلبہ پالیا۔ سہ پہر کے بعد جب مجھے بھان نے جگایا تو دیکھا پریت کور سامنے کھڑی ہے۔ مجھے جاگتا ہوا پا کر بولی۔
”فریش ہو کر جلدی سے نیچے آجائیں۔ بڑے باپو جی کے پاس تھانے دار آیا بیٹھا ہے ۔ آتے ہوئے اپنے کاغذات لیتے آئیے گا“۔
”اوکے….!“ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا تو وہ پلٹ گئی۔
وہ ایک روایتی سکھ تھانے دار تھا۔ چائے پینے کے دوران ہی ضروری کاغذی کارروائی مکمل ہو گئی۔ چائے پی کر وہ چلا گیا۔ تب میں نے محسوس کیا کہ بھان کے باپو کی گاؤں میں خاص عزت اور احترام ہے۔ ورنہ مجھے گاؤں کی چوکی میں جا کر حاضری دینا پڑتی۔ ہم تینوں صحن ہی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انیت کور وہیں آگئی۔ وہ بھان سنگھ کی طرف دیکھ کر بولی۔
”پتر….! میں نے تیرے خیر سے گھر آنے پر گوردوارے میں ارداس رکھی ہے۔ اب جدھر جانا ہے ہو آؤ ، لیکن کل صبح جلدی اٹھنا ہے اور گرودوارے جانا ہے“۔
ان کے یوں کہنے پر مجھے احساس ہوا کہ جیسے وہ بھان سنگھ کو نہیں اپنے خاوند کو سنا رہی ہیں کہ اِدھر اُدھر کہیں نہ جانا، صبح گرودوارے میں ارداس ہے۔ کیونکہ اس پر پردیپ سنگھ نے اپنی بیوی کو بڑے غور سے دیکھا تھا۔
”اچھا ماں جی“۔ بھان سنگھ نے احترام سے جواب دیا تو پردیپ سنگھ وہاں سے اٹھ گیا۔ انیت کور بھی اندر کی طرف چلی گئی۔ تب میں نے کہا۔
”اوئے بھان….! صبح سے تُو نے پریت کور کو ذرا بھی وقت نہیں دیا۔ میں چلتا ہوں کمرے میں اور تو….“
”پرتیو کا یہ مسئلہ نہیں ہے، میں گھر میں ہوں۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ تو چل آکھیتوں کی طرف چلتے ہیں۔ بہت عرصہ ہوا ہے ادھر نہیں گیا۔ چل اٹھ“۔
”کیا تیرے ادھر گاؤں میں دوست نہیں ہیں“۔ میں نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
”ہیں….! مگر وہ شاید ہی ہوں اس وقت گاؤں میں ہر کوئی اپنے کام میں الجھا ہوا ہے۔ اتوار کو شاید ملیں۔ اگر کوئی ہوا بھی تو کل شام ہی کو ملیں گے“۔ اس نے یوں بے پروائی سے کہا جیسے اب گاؤں کے دوستوں کی اسے ضرورت نہیں ہے۔ ایک طرح سے وہ ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ اس مشینی دور میں ہر کوئی اپنے اپنے کام کاج میں الجھا ہوا تھا۔ ہم دونوں حویلی سے نکلے تو پیدل ہی چلتے چلے گئے۔ اس وقت سورج مغرب میں چھپ گیا تھا۔ جب ہم واپس پلٹے۔
اگلی صبح میں جلد ہی جگالیا گیا۔ ہم جب تیار ہو کر نیچے آئے تو سبھی نے صاف ستھرے اجلے لباس پہنے ہوئے تھے۔ پریت کور کی سج دھج دیدنی تھی۔ اس نے انڈوں کا حلوہ اور چائے ہمارے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ ”جلدی سے چائے پی لو اور، آجانا گرو دوارے ہم جارہے ہیں“۔
”سوہنیو، آپ چلو، ہم آپ کے پیچھے پیچھے ہی آرہے ہیں“۔ بھان سنگھ نے خوشگوار لہجے میں کہا اور حلوے کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ میں ان دونوں کے چہرے پر پھیلی بھینی بھینی مسکراہٹ سے لطف انداز ہو رہا تھا۔ تبھی میں نے دیکھا دائیں طرف کے ایک کمرے سے پرونت کور بر آمد ہوئی۔ اس نے بھی صاف ستھرا لباس پہنا ہوا تھا، ہاتھ میں بڑی ساری لاٹھی جس کے سہارے وہ چل رہی تھی۔ حالانکہ اسے چا چی جسمیت کور نے سہارا دیا ہوا تھا۔ ایک لمحے کو اس نے میری طرف دیکھا اور پھر آگے بڑھ گئی۔ وہ سب پہلے صحن میں اکٹھے ہوئے، پھر باہر نکلتے چلے گئے۔
”یار….! سب گھر والے چل دیئے یہاں گھر کی نگرانی کے لیے کون ہے….“ میں نے پوچھا۔
”ملازم ہیں نا….“ یہ کہہ کر اس نے چائے کا بڑا سپ لیا۔ پھر ہم بھی چائے پی کر چل دیے۔حویلی سے نکلتے ہی مجھے خیال آیا۔
”یار یہ تم لوگوں کی کوئی مذہبی محفل ہو گی، میں اس میں کہیں….“
”او نہیں یار….! چلو تم“۔ یہ کہہ کر وہ چند لمحے رکا پھر چل پڑا“۔ یہ ارادس جو ہوتی ہے، ایک قسم کی تم اسے دعائیہ محفل کہہ لو، اس میں گرو گرنتھ صاحب پڑھی جاتی، جسے ہم پاٹھ کہتے ہیں۔ پھر کھڑے ہو کر گروجی کی فتح کی دعا ہوتی ہے۔ پھر اپنے لیے رب سے مانگتے ہیں۔ یہ ہر خوشی یا غمی کے موقع پر بنالی جاتی ہے“۔
”یار میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو، میں تو اپنے بارے میں پوچھ رہا ہوں کہ تم مجھے وہاں لے جا تو رہے ہو کہیں وہ….“ میں نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ میرے سامنے پرونت کور کا چہرہ آگیا تھا۔
”او نہیں….! تو میرے ساتھ وہاں ارداس میں میں بیٹھنا“۔ اس نے تیزی سے کہا تو میرے ڈھیلے پڑتے ہوئے قدم تیز ہو گئے۔ دراصل مجھے اندر سے یہ افسوس ہو رہا تھا کہ میں آج امرت کور سے نہیں مل پاؤں گا۔ آج کی صبح تو اس ارداس کی نذر ہو جائے گی۔ میں نے بھان سے نہیں کہا، کیونکہ بہر حال یہ اس کا مذہبی معاملہ تھا اور خصوصاً اس کی والدہ نے اس کا اہتمام کیا تھا۔ راستے میں وہ مجھے گرودوارے کے آداب بتاتا چلا گیا۔جسے میں نے بڑے غور سے سنا ۔ کچھ ہی دیر بعد ہم زرد چونے والی ایک بڑی ساری عمارت کے سامنے جارکے۔ ہم نے جوتے اتارکے ایک طرف رکھے پاؤں دھوئے اور اندر چلے گئے وہ ایک کھلی سی عمارت تھی چاروں طرف کمرے تھے۔ صرف داخلی دروازہ کھلا تھا، کمروں کے آگے بر آمدہ اور بالکل سامنے ایک ہال نما بڑا سارا کمرہ تھا۔ کافی سارے لوگ اس ہال کی طرف بڑھ رہے تھے۔
”یہاں عبادت کے لیے روزانہ اتنے ہی لوگ آتے ہیں؟“ میں نے انہیں دیکھ کر پوچھا۔
”نہیں ، آج ارداس ہے نا، یہ سب ماں جی کی دعوت پر آئے ہیں، گاؤں کے لوگ ہیں نا….“ بھان سنگھ نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔ تبھی سامنے سے پرتیو آتی دکھائی دی جس کے ہاتھ میں بسنتی رنگ کا رومال پکڑا ہوا تھا۔ وہ
میری طرف بڑھا کر بولی۔
”یہ سر پر باندھ لو، گرودوارے میں ننگے سر نہیں آتے“۔
میں نے وہ رومال اس کے ہاتھ سے لے کر سر پر باندھ لیا اور پھر ہم تینوں اس ہال میں جا پہنچے۔ مرد حضرات ایک طرف اور خواتین ایک طرف بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہمارے اندر داخل ہوتے ہی کچھ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوئے،
پھر وہ اس طرف متوجہ ہو گئے جہاں سیوا دار موجود تھا۔ اس کے آگے گرو گرنتھ صاحب پڑی تھی اور وہ چھور صاحب ہلا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک مذہبی آدمی جسے وہ لوگ گیانی کہتے تھے آگیا۔ وہ دھیمے لہجے میں تقریر کرنے لگا۔ ہم مردوں کی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے اس کی کچھ سمجھ آئی، کچھ نہ آئی اور پھر مجھے سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ کچھ دیر بعد اس کی تقریر ختم ہو گئی تو لوگ دعائیہ انداز میں کھڑے ہو گئے، انہوں اپنے ہاتھ جوڑے اور جذب کے عالم میں اپنی اپنی دعا پڑھنے لگے۔ میں ان سب کی طرف دیکھنے لگا۔ ایک سپرطاقت کو ہر کوئی مانتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے انداز سے مانتا ہے۔ہر مذہبی آدمی یہی خیال کرتا ہے کہ وہ سچ کی راہ پر ہے۔ اب سچ کیا ہے۔
اس کی تحقیق بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ دعائیہ دورانیہ بھی ختم ہو گیا تو لوگ آرام دہ حالت میں آگئے۔
”اب کیا ہو گا؟“ میں نے پوچھا۔
”اب لنگر تقسیم ہو گا۔ ایک دوسرا کمرہ ہے۔ لوگ ادھر زمین پر بیٹھ جائیں گے اور لنگر….“ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے خاموش ہو گیا۔ پھر سرسراتے ہوئے انداز میں بولا۔”وہ …. امرت کور…. وہ سامنے…. جو ابھی ہال میں داخل ہوئی ہے۔ وہ جس نے سفید لباس پہنا ہوا ہے“۔
ایک دم سے میرا خون کا دورانیہ تیز ہو گیا۔ میں نے داخلی دروازے کی طرف دیکھا۔ قابل رشک صحت کی مالک، ایک لمبے قد کی خاتون سب سے بے نیاز دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی اس جانب بڑھ رہی تھی، جہاں منجی صاحب کے اوپر گرو گرنتھ صاحب دھری ہوئی تھی اور سیوا دار چھور صاحب ہلا رہا تھا۔ کسی نے بھی اس کی آمد کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ یوں جیسے وہ اس سارے ماحول میں فالتو شے ہے۔ جیسے اس کا ہونا اور نہ ہونا ایک برابر ہے۔ میں نے غور
سے اس کی طرف دیکھا۔ بلاشبہ اپنے دور میں وہ بہت خوبصورت خاتون رہی ہو گی۔ اچھا خاصہ قد کاٹھ، پتلی سی، گورے رنگ کی، سفید لباس میں مزید دمک رہی تھی، اس کے سارے بال چھپے ہوئے تھے۔ چہرے کے نقوش تیکھے، آنکھیں بڑی بڑی اور تیکھی چتون، گہری نیلی آنکھیں، جن میں سے تجسس اور ماورایت جھلک رہی تھی۔ تیکھا ناک، پتلے پتلے لب، گول چہرہ، لمبی گردن اور جسم کی ساخت ڈھیلے ڈھالے لباس میں چھپی ہوئی تھی۔ کسی نے
اگر اس کی آمد کا نوٹس نہیں لیا تھا تو وہ بھی سب سے بے نیاز تھی۔ وہ سیدھی وہاں گئی ہاتھ میں پکڑ ہوا کٹورہ ایک طرف زمین پر رکھا اور اونچی آواز میں بولی۔
”آد ہ سچ، جگادسچ…. ہے بھی سچ…. نانک ہوسی بھی سچ….“
(وہ ازل سے سچا ہے ا ور ابد میں بھی سچا ہے۔ اصل میں و ہ ہے ہی سچا۔ نانک وہ ہمیشہ سچ ہی ثابت ہو گا۔)
یہ کہہ کر ا س نے گرو گرنتھ صاحب کے آگے سجدے کی سی حالت میں ماتھا ٹیک دیا۔ چند لمحے وہ اسی حالت میں رہی، پھر اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر سینے کے برابر کر لیے تھے۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور نہ جانے کیا سوچے چلی جاری تھی، دعا مانگ رہی تھی، مناجات پڑھ رہی تھی،یا حمد کہہ رہی تھی، اس کے لب دھیرے دھیرے ہل رہے تھے۔ وہ جو بھی پڑھ رہی تھی مگر اس کا جذب متاثر کن تھا۔ اتنے لوگوں کے درمیان بھی وہ
تنہا تھی، اس کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ جیسے یہ سب اس کی نگاہ میں کچھ بھی نہیں ہے اور وہ ویرانے میں کھڑی اپنے رب کی حمد و ثناءکر رہی ہے۔ اس کا جذب دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو فنا کر چکی ہے۔ یہ فنائیت کیسی تھی؟ اس کے بارے میں بھلا کیا کہا جا سکتا تھا۔ تب اچانک وہ اونچی آواز میں بڑے نرم لہجے میں بولی۔
”سنجوگ ُ و جوگ ُ دوءِ کار چلاوہِ
لیکھے آوہ ِ بھاگ
آدیس ُ تِسَے آدیس ُ….“
(وصل اور ہجر دونوں ہی اس دنیا کے کام چلاتے ہیں ہماری قسمت میں جو مقدر لکھ دیا گیا ہے، وہی ہمیں ملنا ہے۔)
اس نے جو کہا تھا، وہ فوری طور پر میری سمجھ نہیں آیا تھا۔ میں نے تجسس آمیز نگاہوں سے بھان سنگھ کی طرف دیکھا تو وہ بولا۔
”یہ اس نے گرو گرنتھ صاحب کے ابتدائی حصے میں سے گرونانک جی مہاراج کا کلام پڑھا ہے“۔ یہ کہہ کر اس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بولا۔ ”اب ایسے کرو آہستہ سے باہر نکلو، تاکہ ہم امرت کور کے باہر نکلنے سے پہلے نکل جائیں“۔
وہاں موجود لوگ آہستہ آہستہ باہر نکل رہے تھے۔ چند منٹوں میں بڑے سکون سے ہال کے باہر آگئے۔ وہاں اردگرد کافی لوگ موجود تھے۔ بھان سنگھ ان سے مل رہا تھا۔ وہ گاؤں والے ہی تھے اور اس کی خیروعافیت سے واپس آجانے پر خوش تھے۔ ظاہر ہے میں ان کے لیے اجنبی تھا، وہ میرے بارے میں بھی متجسس تھے۔ مصافحہ کرنے کی حد تک میں ان سے ہاتھ ملاتا رہا۔ ہر مرد یا خاتون اپنے اپنے انداز میں باتیں کر رہی تھیں، لیکن ان کی طرف میرا
دھیان نہیں تھا۔ میں تو امرت کور کے باہر نکلنے کا منتظر تھا۔ وہ کب باہر آتی ہے اور میں اس کے سامنے جا کر اپنے سر پر پیار لیتا ہوں۔ ایسا ہی کچھ حال بھان سنگھ کا بھی تھا۔ وہ تھوڑی بہت بات کر کے انہیں لنگر خانے کی طرف جانے کی راہ دکھا رہا تھا۔ اس وقت بھی ہمارے پاس کچھ لوگ کھڑے باتیں کر رہے تھے، جب امرت کور ہال سے باہر نکلی، وہ مست الست حالت میں ننگے پاؤں باہر آئی۔ وہ صحن بھی گرودوارے کا ایک حصہ ہی تھا۔ بھان سنگھ نے مجھے ٹہوکا کا دیا تو میں فوراً اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اس نے اپنی گہری نیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے ان آنکھوں میں اجنبیت تھی۔ پھر اگلے ہی لمحے اس کے چہرے پر خوشی کا سورج طلوع ہو گیا۔ ساکت و صاحت ، جذبات سے بے نیاز چہرے پر جیسے خوشیاں پوری طرح آ کر رقص کناں ہو گئی تھیں۔ سفید چہرہ ایک دم سے سرخ ہو گیا۔ پلکوں سے لے کر گالوں تک سے خوشی پھوٹنے لگی تھی۔ وہ اس قدر خوشی سے بھرپور تھی کہ
دھیرے دھیرے لرزنے لگی۔ وہ بنا پلکیں جھپا کے ایک ٹک میری طرف دیکھتی چلی جارہی تھی۔ اس کے ہونٹ ہولے ہولے لرزنے لگے تھے۔ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر کہہ نہیں پارہی ہے۔ اس کے پاؤں جیسے زمین نے باندھ لیے تھے۔ وہ بت بنی میری جانب دیکھے چلی جارہی تھی۔ کتنے ہی لمحے اسی حالت میں گزر گئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت میں امرت کور کی حالت دیکھ کر اندر سے خوف زدہ ہو گیا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے اسے؟ ممکن ہے
میری طرح کچھ اور لوگوں نے بھی یہ محسوس کیا ہو۔ مگر میں اس وقت امرت کور کے ٹرانس میں تھا۔ یوں جیسے اس کی تیز چمکتی ہوئی گہری نیلی آنکھوں نے مجھے باندھ لیا ہو۔ اس حالت میں چند منٹ گزر گئے۔ تبھی اس نے اپنا ہاتھ دھیرے دھیرے اٹھایا اور میرے سر پر رکھ دیا ۔ اس کے ساتھ ہی وہ آسمان کی طرف دیکھ کر بولی۔
”واہ گرو دی جے۔ اتے واہ گروہ دی فتح“۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔ ”تجھے آنا ہی تھاآگیا ہے نا تو میرے بچے رب نے میری سن لی…. اور سب سچ کر دیا جو میں چاہتی تھی۔ تُو آگیا….“
یہ کہتے ہوئے اس نے پھر سے اپنا ہاتھ میرے سر پر سے اٹھایا۔ پھر وہ ہاتھ یوں بڑھائے جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو گود میں لینا چاہتی ہے۔ میں ایک لمحے کو جھکا پھر میں آگے بڑھ گیا۔ اس نے زور سے پیار بھری شدت کے ساتھ مجھے بھینچ لیا۔ میں اس کے سینے کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ اس میں سے ایک الگ خوشبو کا احساس میرے اندر سرائیت کر گیا۔ وہ بالکل ایک انوکھی مہک تھی، جسے میں کوئی نام نہیں دے پاتا ہوں اور نہ ہی اس کی کوئی مثال میرے سامنے
تھی۔ اس کا دل اس قدر تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ جیسے ابھی سینے سے نکل کر باہر آ جائے گا۔ چند لمحوں تک وہ مجھے اپنے ساتھ بھینچے رہی، پھر آہستگی کے ساتھ چھوڑتے ہوئے میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھویں لے لیا۔ میری طرف دیکھتی رہی۔ پھر مسکراتے ہوئے زور سے بولی۔

رائیں سائیں سبھیں تھائیں، رب دیاں بے پروائیاں….
سوہنیاں پرے ہٹایاں نیں تے کوجھیاں لے گل لائیاں….
جیہڑا سانوں سیّد سدے، دوزخ ملن سزائیاں….
جو کوئی سانوں رائیں آکھے، بہشتیں پینگھاں پائیاں….
جے تو لوڑیں باغ بہاراں چاکر ہو جا رائیاں۔

حضرت بلھے شاہ سرکار کے کلام میں سے آگے پیچھے کر کے اس نے بڑے رسان سے پڑھا اور پھر میرے چہرے کو اس نے چھوڑ دیا۔ پھر جیسے اسے کچھ یاد آگیا۔ وہ تیزی سے واپس ہال کی طرف پلٹی اور تیز تیز قدموں سے اندر چلی گئی۔ میں نے ساتھ کھڑے بھان سنگھ کی طرف حیرت سے دیکھا تو وہ مجھ سے بھی زیادہ حیرت میں ڈوبا ہوا کھڑا تھا ۔ اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں اور چہرے پر انتہائی تجسس پھیلا ہوا تھا۔ ایسی ہی حالت وہاں پر کھڑے چند خواتین و حضرات کی بھی تھی وہ سب تجسس حیرت اور تعجب سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے چہروں پر بھان سنگھ سے بھی زیادہ سولات پڑھے جا سکتے تھے۔ میں کافی حد تک پریشان ہو گیا۔ کیونکہ سب کی نگاہیں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں اور کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہہ پارہا تھا۔ میرے پاس کوئی لفظ نہیں تھے کہ میں کچھ کہتا۔ وہاں جو بھی تھے سب ٹرانس کی حالت میں تھے۔ جیسے کسی نے ان پر جادو کر دیا ہو۔ وہ حیرت سے تکے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی بات کرتے امرت کوراسی تیزی سے واپس پلٹ آئی۔ اس کے ہاتھ میں وہی کٹوری تھی جو وہ اپنے ساتھ لے کر آئی تھی۔اس میں زرد رنگ کا حلوہ تھا۔ اس نے اپنی دو انگلیوں اور انگوٹھے سے ذرا سا حلوہ لیا اور میری طرف بڑھایا تاکہ میں کھا لوں۔ میں ایک لمحے کو جھجکا پھر وہ حلوہ کھالیا۔ بہت لذیذ حلوہ تھا۔ وہ سوجی، آٹے کا حلوہ تھا۔
اس نے مجھے دو چار لقمے کھلائے، پھر کٹوری بھان سنگھ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔
”لے پتر کھا….! میٹھی مراد دی ہے تو میٹھی مرادپا…. جب تک میں نہ کہوں…. اسے یہاں سے جانے نہ دینا۔ واہ گرو کی مہر ہو تم پر….“۔
اس نے کہا چند لمحے میری طرف دیکھا اور پھر بے نیازی سے گرو دوارے سے باہر نکلتی چلی گئی۔ میرے سمیت سب اسے حیرت سے دیکھتے رہے جب تک وہ باہر نہیں چلی گئی۔ تبھی ایک بوڑھی سی خاتون شدت جذبات میں بولی۔
”واہ پترواہ….! تجھ میں ایسی کیا بات ہے جو اتنے برس کی خاموشی توڑ دی امرت کی۔ آج پہلی بار اسے یوں بولتے ہوئے سنا ہے“۔
اس کے یوں کہنے پر میں بری طرح چونک گیا۔ مجھ میں ایسی کون سی بات ہو سکتی ہے کہ وہ مجھے دیکھ کر اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور ہو گئی ہے؟ میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا، لیکن میرے اردگرد کھڑے لوگ اپنے اپنے طور پر تبصرہ آرائی کرنے لگے تھے۔ میں ان سب کی نگاہوں میں تھا۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ میرے لیے سب کی نگاہوں میں مثبت انداز ہی ہو۔ وہ اپنے طور پر پتہ نہیں کیا سوچ رہے تھے۔ تبھی بھان سنگھ نے میرے بازو سے مجھے مضبوطی کے ساتھ پکڑا اور گرو دوارے کے باہر چلنے کا اشارہ کیا۔ میں تیزی کے ساتھ چل پڑا۔ اپنے جوتے اٹھا کر پہنے اور گرودوارے کے باہر آ کر میں نے ایک طویل سانس لیا۔
” یہ کیا ہو گیا یار….؟“ بھان سنگھ نے یوں پوچھا جیسے یہ سب کچھ اس کی سمجھ میں نہ آیا ہو۔ تب میں نے اپنے حواس بحال کرتے ہوئے کہا۔
”میں کیا کہہ سکتا ہوں یار….! جب تُو کچھ نہیں سمجھ سکا تو مجھے کیا سمجھ آئی ہو گی“۔
”یہ تو انہونی ہو گئی یار، وہ اتنے برس صرف اس ہال میں شری گرنتھ صاحب کے سامنے ہی بولی ہے۔ کبھی کسی نے باہر اسے بولتے ہوئے نہیں سنا، اور پھر ان شبدوں پر غور کرو، جو اس سے تم سے کہے…. ضرور اس میں کوئی بات ہے۔ ان شبدوں میں، تم میں…. اور میں اس کی خاموشی ٹوٹنے میں کوئی تعلق کوئی رشتہ ضرورہے“۔ اس کی حیرت ابھی تک کم نہیں ہوتی تھی۔
”دیکھ بھان….! اب اگر تمہاری اس مذہبی محفل میں مطلب ارداس میں تمہاری ضرورت ہے تو تم جاؤ اندر، میں حویلی تک چلا جاﺅں گا۔ واپس آؤ گے نا تو اس پر بات کرتے ہیں“۔ میں نے اس کا دھیان بٹانے کے لیے کیا۔
کیونکہ مجھے بھی سمجھ نہیں آرہا تھا تو میں اس کے ساتھ کیا بحث کرتا۔ اس وقت میں خود تنہائی کی شدت سے طلب محسوس کر رہا تھا۔بھان نے میرے چہرے پر دیکھا۔ پھر نفی میں سرہلاتے ہوئے بولا۔
”نہیں….! دونوں چلتے ہیں حویلی…. وہیں بات کرتے ہیں“۔ اس نے کہا تو ہم دونوں حویلی کی جانے چل دیئے۔ہمارے ساتھ ایک انجانی خاموشی بھی چل دی

جاری ہے
**************

Comments

- Advertisement -