تازہ ترین

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

کورونامریضوں کے حوالے سے ایک اور خوفناک انکشاف

سائنسی تحقیق کرنے والے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کورونامریضوں میں پایا جانے والا نمونیا دیگر اقسام سے بہت مختلف ہوتا ہے جو تیزی سے پھیپھڑوں کے بڑے حصے پر پھیل جاتا ہے۔

طبی جریدے نیچر میں شایع ہونے والی تحقیق کے مطابق عام مریضوں کے مقابلے میں کورونا مریضوں میں پایا جانے والا نمونیا دیگر اقسام سے مختلف ہوتا ہے، بیکٹریا یا وائرسز کے نتیجے میں ہونے والا نمونیا چند گھنٹوں میں پھیپھڑوں کے بڑے حصے میں پھیل جاتا ہے لیکن جلد ہی کنٹرول بھی ہوجاتا ہے۔

اس امریکی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کورونا مریضوں میں پائے جانے والے نمونیے کو اینٹی بائیوٹیکس یا جسمانی مدافعتی نظام کی مدد سے بیماری کے چند دن بعد کنٹرول کرلیا جاتا ہے۔

مریضوں میں نمونیا کی یہ قسم چھوٹے چھوٹے متعدد حصوں میں بٹ جاتی ہے۔ تحقیق کے مطابق نمونیا پھیپھڑوں کے مدافعتی خلیات کو ہائی جیک کرکے ان کی مدد سے کئی ہفتوں تک پھیپھڑوں میں خود کو پھیلاتا ہے اور جیسے جیسے بیماری سست روی سے پھیپھڑوں میں پھیل رہی ہوتی ہے وہ پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانا جاری رکھتا ہے۔

انسانی جسم میں موجود کونسی شے کورونا کی شدت پر اثر انداز ہوتی ہے؟

بعد ازاں کورونا مریضوں میں مسلسل بخار، لو بلڈ پریشر، گردوں، دماغ، دل اور دیگر اعضا میں نقصانات سامنے آتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ پہلی ریسرچ ہے جس میں سائنسدانوں نے کووڈ کے باعث نمونیا کے شکار مریضوں کے پھیپھڑوں کے مدافعتی خلیات کا منظم طریقے سے مشاہدہ کیا اور دیگر اقسام سے موازنہ بھی کیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جلد اس صورت کے علاج کے لیے دوا کے تجربات کیے جائیں گے، ممکنہ دوا مدافعتی خلیات کے ورم پیدا کرنے والے ردعمل کو کم کرتی ہے، جس کے نتیجے میں پھیپھڑوں کی مرمت کا عمل شروع ہوجاتا ہے، اس طرح نمونیا کے پھیپھڑوں پر منفی اثرات کی روک تھام کی جاسکے گی۔

دوسری جانب چین کے زیرانتظام شہر ہانگ کانگ میں ہونے والی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ کورونا وائرس کے شکار مریض میں بیماری کے دورانیے، شدت اور مدافعتی ردعمل کے حوالے سے معدے میں موجود بیکٹریا ممکنہ طور پر اثرانداز ہوسکتے ہیں، مشاہدے کے دوران نتائج نے طبی محققین کو بھی حیرت زدہ کردیا ہے۔

تحقیق کے مطابق کورونا کی وجہ سے مریض کے معدے میں موجود بیکٹریا کی تعداد میں کمی واقع ہوتی اور یہ سلسلہ بیماری سے صحت یابی کے بعد بھی 30 دن تک جاری رہتا ہے، معدے میں پائے جانے والے بیکٹریا عمومی طور پر کھانے کو ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں لیکن کوویڈ19 مریضوں پر اس کے مختلف اثرات ہیں۔

Comments

- Advertisement -