تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

عربی حکایت: عبادت گزار چور

جزیرۂ عرب کے بارے میں ایک عام خیال تو یہ ہے کہ وہاں کا معاشرہ تمدن اور ثقافت سے ناآشنا اور لوگ یا تو ان پڑھ تھے یا قدیم عرب میں دنیا کے دیگر خطوں کی طرح تعلیم کا شعور ہی نہ تھا، مگر عربی زبان فصیح اور وسیع ذخیرۂ الفاظ کی حامل ہے جس میں کئی محاورے، قصائص اور حکایات بیان کی گئیں۔

عرب دنیا سے یہ حکایت آپ کے حسنِ مطالعہ کے لیے پیش ہے۔

ایک بادشاہ اپنی جوان بیٹی کی شادی کے لیے فکر مند تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ ایسا نوجوان اس کی بیٹی سے نکاح کرے جو عبادت گزار اور نیک سرشت ہو۔ یوں تو بہت سے عبادت گزار نوجوان اس کی نظروں کے سامنے تھے، لیکن بادشاہ ان سے مطمئن نہ تھا۔

ایک دن اس نے وزیر کو بلایا اور کہا کہ میری بیٹی کے لیے میری رعایا میں سے کسی نہایت عبادت گزار اور نیک انسان کو تلاش کر کے سامنے پیش کرو۔

وزیر نے چند سپاہیوں کو شہر کی جامع مسجد کے گرد تعینات کر دیا اور کہا چھپ کر دیکھتے رہو جو شخص آدھی رات کو مسجد میں داخل ہو گا، اسے نکلنے مت دینا جب تک میں نہ آ جاؤں۔ سپاہی حکم کی تعمیل میں مسجد کے دروازے پر نظریں لگا کر بیٹھ گئے۔

ادھر ایک شخص چوری کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلا۔ اس کے دل میں آیا کہ آج شہر کی جامع مسجد کا قیمتی سامان چرا لے۔ چور نے اسی خیال کے تحت جامع مسجد کی طرف قدم بڑھا دیے۔ رات کا وقت تھا، اور مسجد خالی پڑی تھی۔ وہ مرکزی دروازے سے اندر چلا گیا۔

ادھر مسجد کے خادم نے رات گہری ہو جانے پر معمول کے مطابق دروزاہ بند کیا اور قفل لگا کر اپنے گھر چلا گیا۔ اب فجر کے وقت ہی مسجد کا دروازہ کھلنا تھا اور وہ چور اندر موجود تھا۔

سپاہیوں نے وزیر کو اطلاع دے دی تھی کہ لگتا ہے کوئی عبادت گزار آیا ہے اور اب مسجد کے اندر موجود ہے، مگر دروازے پر قفل لگ چکا ہے جو صبح ہی کھلے گا۔

وزیر نے بھی یہی سوچا کہ یقینا وہ کوئی عابد اور نہایت پرہیز گار شخص ہو گا جو رات کو عبادت کی غرض سے مسجد میں بیٹھا ہے۔ وہ صبح کی اذان سے پہلے مسجد پہنچ گیا تاکہ دروازہ کھلے تو اندر جائے اور وہاں موجود اس نیک انسان کو بادشاہ کے سامنے پیش کرسکے۔

جیسے ہی مسجد کھلی وزیر اور سپاہی اندر اندر داخل ہوئے۔ سپاہیوں کو دیکھ کر اندر موجود چور گھبرا گیا۔ اسے بھاگنے کا کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ اس نے پکڑے جانے کے خوف سے جلدی سے نماز کی نیت باندھ لی۔ وزیر اور سپاہی اس کی نماز ختم ہونے کے انتظار میں تھے، لیکن وہ جوں ہی سلام پھیرتا، کھڑا ہو کر دوبارہ نیت باندھ لیتا۔

اس عمل نے وزیر کو اس کے نہایت متقی اور عبادت گزار ہونے کا یقین دلا دیا۔ وزیر نے سپاہیوں کو اشارہ کیا کہ وہ جیسے ہی سلام پھیرے اسے اپنے حصار میں لے لیں اور بادشاہ کے روبرو لے چلیں۔ ایسا ہی ہوا۔

چور کی حالت غیر ہو رہی تھی، مگر کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ بادشاہ کے سامنے وزیر نے کہا،

بادشاہ سلامت یہ ہے آپ کا مطلوبہ شخص، اسے مسجد سے لے کر آیا ہوں، رات بھر مسجد میں عبادت کرتا رہا۔

بادشاہ نے اس شخص سے مخاطب ہو کر کہا،

اگر میں اپنی بیٹی کی تم سے شادی کر کے تمھیں اپنی سلطنت کا ولی عہد مقرر کر دوں تو کیا تمھیں منظور ہے؟

چور ہکا بکا اس کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

عالی جاہ! یہ کرم نوازی کس لیے؟

بادشاہ نے کہا تم عابد اور نیک ہو، رات بھر مسجد میں عبادت کرتے رہے۔

چور نے یہ سنا تو دل ہی دل میں نادم ہوا۔ اس نے اپنے ربّ سے توبہ کرتے ہوئے سوچا کہ میں چوری کی نیت سے گیا، دکھاوے کی نیت سے نماز ادا کی، لیکن تیرے کام تو انسان کی عقل میں نہیں سماتے، تُو نے اس کی سزا دینے کے بجائے اس کے بدلے میں دنیا ہی میرے قدموں میں ڈال دی۔ چور نے سوچا اگر میں سچ مچ عبادت گزار ہوتا اور تہجد کا پابند ہوتا پھر اللہ کا انعام کیا ہوتا۔

یوں نادم ہو کر وہ شخص چوری سے تائب ہوا اور باقی زندگی عبادت اور نیک کاموں میں گزار دی۔

Comments

- Advertisement -