منگل, ستمبر 17, 2024
اشتہار

فطرت نہیں بدلتی (حکایت)

اشتہار

حیرت انگیز

کسی ملک میں لٹیروں کا کوئی گروہ بڑا طاقت ور ہوگیا۔ اس میں شامل لٹیروں کے پاس بہت سے ہتھیار بھی تھے۔ وہ لوگوں سے لوٹ مار کرتے اور قتل سے بھی دریغ نہ کرتے۔ ہر طرف اس گروہ کی دہشت پھیل گئی تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگوں کی شکایات پر بادشاہ نے اپنی فوج کو ان لٹیروں کی سرکوبی کا حکم دے دیا۔ یہ چور ملک کی ایک پہاڑ کی چوٹی پر قابض تھے۔ یہی ان کی کمین گاہ تھی۔

ایک روز فوج کے چند سپاہیوں نے علاقے کو گھیر کر لٹیروں کے خلاف کارروائی شروع کی لیکن ناکام ہوگئے۔ کیونکہ لٹیرے پہاڑی کی ایسی پوزیشن پر تھے کہ ان کو نقصان ہی نہیں ہورہا تھا۔ وہ موقع ملتے ہی بادشاہ کے سپاہیوں کو نشانہ بناتے اور خود محفوظ رہتے۔ شاہی فوج کی یہ چھوٹی سی ٹکڑی انھیں کوئی نقصان پہنچائے بغیر ناکام لوٹ گئی۔ اس طرح اس گروہ کی ہمّت بڑھ گئی۔ وزیرِ دفاع نے صلاح مشورہ کے بعد ایک فیصلہ کیا اور ایک جاسوس نے جب یہ اطلاع دی کہ لٹیرے کہیں گئے ہوئے ہیں تو چند تجربہ کار، جنگ آزمودہ لوگ اس پہاڑ کی طرف نکلے اور وہاں ایک گھاٹی میں چھپ گئے۔ رات گئے ڈاکو کہیں سے لوٹ مار کے بعد واپس آئے، ہتھیار اتارے، لوٹا ہوا مال غار میں رکھا اور تھکن کی وجہ سے پڑ کر سو گئے۔ رات کا ایک حصہ گزر گیا تو وہ ماہر لڑاکا گھاٹی سے نکلے اور انھیں نیند کے عالم میں‌ پکڑ لیا۔ تیزی سے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور صبح بادشاہ کے دربار میں پیش کر دیا۔ سب جانتے تھے کہ ابھی بادشاہ کے حکم پر ان کو مار دیا جائے گا۔ ان لٹیروں میں ایک خوب صورت نوجوان بھی تھا جس کی ابھی داڑھی پھوٹ رہی تھی۔ ایک وزیر کو اس پر ترس آیا اور بادشاہ سے اس کی سفارش کی کہ اس بے چارے نے ابھی اپنی جوانی بھی نہیں دیکھی۔ میری سفارش قبول کرتے ہوئے اس کا خون معاف کیا جائے۔ یہ آپ کا اس سے زیادہ مجھ پر احسان ہوگا۔ بادشاہ یہ سن کر لال پیلا ہو گیا کیونکہ یہ بات اس کے مزاج کے خلاف تھی۔ جس کی اصل بری ہو وہ نیکوں کا سایہ بھی برداشت نہیں کرتا۔ نااہل کی تربیت کرنا ایسا ہی جیسے گنبد پر اخروٹ رکھنا۔ بادشاہ نے کہا کہ ان چوروں کی جڑ کاٹ دینا ہی بہتر ہے کیونکہ آگ کو بجھا کر چنگاری چھوڑ دینا یا سانپ کو مار دینا اور اس کے بچّے کی حفاظت کرنا عقلمندی نہیں ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اگر بادل سے آبِ حیات بھی برسے تب بھی تجھے بید کی شاخ سے پھل نہ ملے گا، کمینے کے ساتھ وقت ضائع نہ کر، کیونکہ بوریے کے نرکل سے شکر نہیں ملے گی۔

وزیر نے بادشاہ کی یہ بات سن کر بادلِ نخواستہ رضا مندی ظاہر کی اور بادشاہ کی رائے کو سراہا اور عرض کیا آپ کا فرمان بجا مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ ان کی صحبت میں رہ کر ان جیسا ہو گیا ہے۔ اب اگر اس کو معاف کر دیا جائے تو نیکوں کی صحبت میں رہ کر ہو سکتا ہے نیک ہو جائے۔ ابھی بچّہ ہے اور ان کی صحبت کے اثر نے بھی اس کی طبیعت میں جڑ نہیں پکڑی۔ وزیر کی یہ بات سن کر دربار میں سے کچھ اور لوگ بھی اس کے ہمنوا ہوگئے۔چنانچہ بادشاہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی معاف کردیا۔ اس لڑکے کو وزیر نے اپنے ایک شاہی خادم کے سپرد کردیا۔ اور اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور ایک استاد نے اس کو آداب سکھائے، بات چیت کا طریقہ بتایا، شاہوں کی بارگاہ میں بیٹھنے کا سلیقہ تک سکھایا اور واقعی سب اس کو پسند کرنے لگے۔ ایک دن وزیر نے بادشاہ کے سامنے اس کی خوبیاں بیان کرنا شروع کر دیں کہ عقلمندوں کی کوششوں نے اس کی طبیعت پر بہتر اثر کیا ہے اور اس نے پرانی عادتیں چھوڑ دی ہیں۔

- Advertisement -

بادشاہ نے مسکرا کر کہا!آخر کار بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی ہوتا ہے، اگرچہ انسانوں کے ساتھ تربیت پائے۔ وزیر یہ سن کر چپ ہوگیا مگر دل میں بادشاہ کی اس بات کا بڑا ملال ہوا۔ تقریباً دو سال گزرے ہوں گے کہ اس لڑکے کی چند آوارہ مزاج اور بدمعاش قسم کے لڑکوں سے دوستی ہوگئی۔ اس کا اکثر وقت ان کے ساتھ گزرنے لگا۔ وزیر کے شاہی خادم نے اس جانب توجہ نہ دی۔ اور نہ ہی وزیر سے اس کا ذکر کیا۔ ایک روز عجیب بات ہوئی۔ وہ لڑکا اور اس کے دوست کسی طرح وزیر کے گھر میں‌ گھس گئے۔ انھوں نے وزیر اور اس کے دو بیٹوں کو قتل کر کے اس کا سارا مال جمع کیا اور بھاگ گئے۔ وہ لڑکا اب اپنے انہی ساتھیوں‌ کو لے کر چوروں کی گھاٹی میں جا کر رہنے لگا۔ اس نے بغاوت کر دی تھی۔ بادشاہ کو پتہ چلا تو اس نے افسوس کرتے ہوئے اپنی انگلی دانتوں میں دبائی اور کہا، گھٹیا لوہے سے اچھی تلوار نہیں بن سکتی، سکھانے پڑھانے سے نالائق، لائق نہیں ہو سکتا، جس کی طبیعت میں برائی رچ بس جائے اس پر تربیت بھی اثر نہیں کرتی لہٰذا ہر وقت اس کے شر سے محتاط رہنا چاہیے۔

(ماخوذ از سبق آموز کہانیاں اور حکایت)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں