منگل, مئی 21, 2024
اشتہار

آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار، مقبول کالم نویس

اشتہار

حیرت انگیز

آرٹ بکوالڈ (Art Buchwald) دنیا کے اُن چند عالمی شہرت یافتہ اور مقبول طنز نگاروں میں شامل ہیں جو امریکا کے ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت اخبار سے 40 سال تک بطور کالم نویس منسلک رہے۔ انھیں امریکی سماج اور سیاست کا ایک ایسا نکتہ چیں کہا جاسکتا ہے جسے عوام اور خواص میں‌ یکساں احترام اور مقبولیت حاصل رہی۔

طنز نگار آرٹ بکوالڈ زندہ دل بھی تھے اور باریک بیں بھی۔ انھیں زندگی کا خوب ادراک تھا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے آرٹ بکوالڈ نے جو کچھ سیکھا، وہ اپنے کالموں کی شکل میں‌ اپنے قارئین تک پہنچایا۔

کالم نویس آرٹ بکوالڈ کی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت نے امریکا، بالخصوص واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو جس خوب صورتی سے اپنی عام تحریروں اور کالموں میں سمویا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ دنیا میں لاکھوں لوگ آرٹ بکوالڈ کے مداح ہیں اور انھیں بہترین طنز نگار مانا جاتا ہے۔

- Advertisement -

آرٹ بکوالڈ کا قلم 40 سال تک کالم نگاری میں مصروف رہا اور ان کی 33 کتابیں بھی شایع ہوئیں جنھیں قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کالم نگار کی حیثیت سے آرٹ بکوالڈ نے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات پر گہرا طنز کرتے ہوئے ایسے تیکھے جملے تحریر کیے جس نے سنجیدہ، باشعور امریکی عوام اور اہلِ علم و ادب کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ آرٹ بکوالڈ کا ایک مشہور طنزیہ جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘

ایک سروے کے مطابق صرف امریکا میں آرٹ بکوالڈ کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ ایک عالی دماغ انسان اور طنز نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت امریکا تک محدود نہیں رہی بلکہ عالمی حالات و واقعات میں دل چسپی لینے والے اور باقاعدگی سے انگریزی روزنامے اور مختلف جرائد پڑھنے کے عادی بیرونِ ملک موجود قارئین میں وہ بہت جلد مقبول ہوگئے۔

اس امریکی طنز نگار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 5 سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی جرائد کے لیے کالم اور مضامین لکھتے رہے۔ آرٹ بکوالڈ کی جو تحریریں‌ واشنگٹن پوسٹ کی زینت بنیں، ان میں زیادہ تر سیاسی پارٹیوں، سیاست دانوں، حکومت اور اپنے معاشرے پر گہرا طنز کیا ہے۔ ان کی یہ تحریریں ثابت کرتی ہیں‌ کہ وہ ایک بیدار مغز انسان تھے اور یہی وصف آرٹ بکوالڈ کو ان کے ہم عصروں میں بھی ممتاز کرتا ہے۔

امریکا اور دنیا بھر میں اپنے زورِ‌ قلم کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے آرٹ بکوالڈ نے اپنی وفات سے تقریباً ایک سال پہلے ہی اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت وہ پیرس میں مقیم تھے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا جب انھوں نے اپنے کالموں میں امریکا کے اعلیٰ طبقات اور اشرافیہ پر طنز کرنا شروع کیا۔

بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ ان کا تعلق نیویارک کے ایک یہودی گھرانے سے تھا۔ آرٹ بکوالڈ کے والد کو کاروبار میں گھاٹا ہوتا رہا جس کے نتیجے میں یہ کنبہ مشکلات میں گھر گیا۔ آرٹ بکوالڈ کو کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے تھے۔

1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کا ایک خاص وصف ارد گرد پھیلے ہوئے عام موضوعات کا انتخاب کرکے اس پر کالم لکھنا تھا۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا اور ان کی تحریریں‌ بامقصد اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھاتی تھیں۔ آج دنیا بھر میں اہلِ قلم آرٹ بکوالڈ کی پیروی کرنے کی کوشش اور ان کے انداز کو اپنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں