اتوار, نومبر 17, 2024
اشتہار

ٔپاکستان میں کلاسیکی موسیقی کی پہچان بننے والے اسد امانت علی خان کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

دس برس کی عمر میں اسد امانت علی خان نے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ وہ پٹیالیہ گھرانے کے فرد اور استاد امانت علی خان کے فرزند تھے۔ اسد امانت علی نے 1970ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد ساز اور آواز کی دنیا سے ناتا جوڑا اور بعد کے برسوں‌ میں لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ آج پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کے اس نام ور فن کار کی برسی ہے۔

اسد امانت علی نے اپنے والد کے گائے ہوئے مشہور گیت اور غزلیں انہی کے انداز میں اس طرح پیش کیں کہ لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اسد امانت علی مشہور ہوگئے۔ اس گلوکار کی وجہِ شہرت ‘عمراں لنگھیاں‘ کے علاوہ گھر واپس جب آؤ گے۔۔۔ جیسا کلام بنا۔ اسد امانت علی نے کئی پاکستانی فلموں کے لیے بھی گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔

اسد امانت علی خان پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کا ایک بڑا نام تھا۔ وہ 8 اپریل 2007ء کو لندن میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ اسد امانت علی 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادا استاد اختر حسین خان سے حاصل کی۔ انھوں نے اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور ان کی جوڑی کو کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کے شائقین کی جانب سے بہت پذیرائی ملی۔ ان فن کاروں نے پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کو ایک نئے انداز سے متعارف کروایا اور لوگوں کی توجہ حاصل کی۔

- Advertisement -

اسد امانت علی خان کے والد کی آواز میں انشا جی اٹھو اب کوچ کرو ایک مقبول ترین غزل تھی اور اسی کلام کو ان کے بیٹے نے دوبارہ گایا اور بہت داد و تحسین سمیٹی۔ اسد امانت علی خان کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت اور غزلیں گانے میں خاص مہارت رکھتے تھے جب کہ ان کی سریلی آواز میں کئی فلمی گانے بھی ریکارڈ ہوئے۔ انھوں نے فلم سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں، ترانہ اور دیگر فلموں کے لیے گیت گائے۔ 2006ء میں اسد امانت علی کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں