اشتہار

پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس حملہ کیس: وزیراعظم کی بریت کا تحریری فیصلہ جاری

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان کی پارلیمنٹ اوروزیراعظم ہاؤس حملہ کیس میں بریت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ، جس میں کہا ہے کہ عمران خان پر سرکاری املاک اور اداروں پر حملہ کیلئے مشتعل کرنے کے الزامات ناکافی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے وزیراعظم عمران خان کی پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس حملہ کیس میں بریت کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے 9 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا، تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 30 اگست کی رات دس بجکر پندرہ منٹ پر پیش آنے والے واقعہ کا مقدمہ دوسرے روز درج کروایا گیام، تھانہ جائے وقوعہ سے دوکلو میٹر سے کم فاصلے پر ہونے کے باوجود سولہ گھنٹے بعد مقدمہ درج کروایا گیا۔

- Advertisement -

فیصلے میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے سامنے ریڈزون میں پیش آنے والے واقعے کا مقدمہ فوری درج نہ کرانے کی معقول وجہ ریکارڈ پر نہیں لائی گئی۔

تحریری فیصلے کے مطابق عمران خان کے خلاف مقدمے میں قتل، اقدام قتل، دہشتگردی یا دیگر جرائم کے ارتکاب کا الزام نہیں، عمران خان پر بطور سربراہ سیاسی جماعت کارکنان کو وزیراعظم ہاؤس پر حملے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کیلئے اکسانے کا الزام ہے۔ عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے کارکنان کو سیاسی تقریر سے پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس پر حملے کیلئے اکسایا جبکہ عمران خان کی تقریر کی ویڈیو ریکارڈنگ یا ٹرانسکرپٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

عدالتی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پولیس ضمنی چالان کے مطابق عمران خان نے کارکنوں کو ایک پتہ بھی توڑنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سے دوٹوک منع کیا، تقریر کے واضح الفاظ کی غیر موجودگی میں عمران خان پر سرکاری املاک اور اداروں پر حملہ کیلئے مشتعل کرنے کے الزامات ناکافی ہیں۔

عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ پراسیکیوشن کے مطابق پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی قیادت نے اکیس ہزار کارکنوں کو پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی کی ہدایات دیں، چند وجوہات کی بنا پر وقوعے کا مقدمہ صرف 131 لوگوں کے خلاف درج کیا گیا۔ ملزمان کے خلاف خاص جرم کے تحت نہیں بلکہ عمومی نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا اگر وقوعہ کے روز اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ تھا تو تمام 21 ہزار لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی، اتنے بڑے ہجوم کو دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود اسلام آباد اور بالخصوص ریڈزون میں داخل ہو کر دھرنا دینے کی اجازت کیوں دی گئی۔

عدالتی فیصلے کے مطابق پبلک پراسیکیوٹر نے کہا کہ مقدمہ سیاسی مخالفت میں درج کیا گیا، کوئی ایسے شواہد اکٹھے نہیں کیے گئے جو پراسیکیوشن کے کیس کو فائدہ دے سکیں جبکہ عمران خان کے خلاف کیس مزید چلانا قیمتی عدالتی وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں