منگل, جنوری 14, 2025

مرزا اسد اللہ خاں غالب

دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا

دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ...

جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا

جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے...

میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی

میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی غیر کی مرگ کا غم...

درد منت ِکش دوا نہ ہوا

درد منت ِکش دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا ہم...

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریرکا

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکر ِتصویر کا آتشیں پا ہوں، گداز ِوحشتِ زنداں نہ پوچھ موے آتش...
خدائے سخن مرزا اسد اللہ خاں غالب نے اردو اور فارسی میں اپنی شاعری کے جوہر دکھائے‘ ان کے ہاں مضامین کی نیرنگی انہیں اردو زباں کے سب سے ممتاز شاعر کادرجہ عطا کرتی ہے۔

Comments