منگل, مئی 14, 2024

ساغر صدیقی

میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست

میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست سونے کے نرم تار کا قائل نہیں ہوں دوست مُجھ کو خزاں کی ایک لُٹی رات...

یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں اِن میں کچُھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو...

ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں​

ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں​ میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں​ ہم نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا...

ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں

ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں مئے شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں تخیل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے...

کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا

کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا میں بھی ترے گلشن میں پھولوں کا خدا ہوتا ہر چیز زمانے کی آئینہ دل ہوتی خاموش...
اردو شاعری میں فقیر منش شاعر کے نام سے جانے والے شاعر ساغر صدیقی کا اصل نام محمد اختر تھا‘ ابتدا میں ’ناصر حجازی‘کے تخلص سے غزلیں کہیں بعد ازاں ’ساغر صدیقی‘ کے نام سے خود کو منوایا۔

Comments