تازہ ترین

وہ کوئی عام چور نہیں تھا!

چین کے ہانگی چو شہر میں ایک مشہور ڈاکو رہتا تھا۔ اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا مگر سب اسے ’لو میں آیا‘ کے نام سے جانتے تھے۔ وہ جہاں بھی ڈاکہ ڈالتا، چوری کرتا وہاں کسی دیوار پر’’لو میں آیا‘‘ ضرور لکھ دیا کرتا تھا۔

رفتہ رفتہ اس کی سرگرمیاں اتنی بڑھی گئیں کہ عوام نے حکومت سے درخواست کی کہ انہیں اس سے چھٹکارا دلایا جائے۔ کوتوال کو حکم دیا گیا کہ کسی بھی طرح ’’لو میں آیا‘‘ کو گرفتار کر لیا جائے۔ گرفتاری کے لئے آٹھ روز کی مدت مقرر کر دی گئی۔

کوتوال سوچ میں پڑ گیا۔ وہ کوئی عام چور نہیں تھا، وہ اتنا چالاک تھا کہ کسی کے پاس اس کی پوری معلومات نہیں تھی، کوئی اس کے رنگ روپ، قد و قامت کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ ایسے چور کو ایک مقررہ وقت کے اندر گرفتار کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔

کوتوال اور اس کے عملے نے چور کی تلاش میں رات دن ایک کر دیے۔ آخر ایک شخص کو گرفتار کر کے منصف کے سامنے پیش کر دیا۔ کوتوال نے کہا ’’حضور! یہی ’’لو میں آیا‘‘ ڈاکو ہے۔ اسے سخت سے سخت سزا دے کر شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کیجئے۔ ‘‘

منصف نے پوچھا ۔’’تمہار پاس کیا ثبوت ہے کہ یہی وہ ڈاکو ہے۔‘‘

’’حضور!‘‘ کوتوال نے عرض کیا ’’ہم نے بڑی ہوشیاری سے اس پر نگاہ رکھی اور اس کی نقل و حرکت کی خبر رکھتے رہے۔ یقین ہو جانے کے بعد ہی ہم نے اسے گرفتار کیا ہے۔‘‘ منصف نے ملزم سے پوچھا ۔’’تمہارا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟‘‘

’’حضور! انہیں اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کسی نہ کسی کو گرفتار کرنا ہی تھا۔ بدقسمتی سے میں ان کے ہتھے چڑھ گیا۔ یہ مجھے پکڑ لائے میں بے گناہ ہوں۔‘‘ ملزم نے کہا۔

مصنف کو شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر کوتوال نے کہا،’’حضور! آپ اس کی باتوں کا اعتبار نہ کریں۔ یہ بہت چالاک ہے۔‘‘

منصف نے کوتوال کی بات کا اعتبار کر لیا اور قیدی کو فی الحال قید خانے میں رکھنے کا حکم جاری کر دیا۔

قیدی درحقیقت ’’لو میں آیا‘‘ ہی تھا۔ اس نے قید خانے پہنچتے ہی اپنی چالاکی دکھانی شروع کر دی۔ اس نے جیل کے محافظوں سے تو دوستی کی ہی جیل کے افسر سے تنہائی میں کہا: ’’خالی ہاتھ بڑوں کی خدمت میں حاضر ہونا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ میرے پاس جو کچھ تھا وہ مجھے قید کرنے والے سپاہیوں نے چھین لیا۔ پھر بھی آپ کو میں ایک چھوٹا سا نذرانہ دینا چاہتا ہوں۔ پہاڑی پر دیوتا کے مندر کے اس ایک اینٹ کے نیچے میں نے تھوڑی سی چاندی چھپا رکھی ہے۔ آپ اسے لے لیں۔‘‘

افسر نے پہلے تو قیدی کی بات کا اعتبار نہیں کیا، مگر پھر بھی قیدی کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گیا اور نشان زدہ اینٹ ہٹا کر دیکھا تو وہاں سے ایک سیر چاندی برآمد ہوئی۔ افسر نے وہ چاندی رکھ لی۔

اس واقعے کے بعد قید خانے کا وہ افسر ڈاکو کے ساتھ دوستانہ سلوک کرنے لگا۔ چند روز گزر گئے۔ ایک روز ڈاکو نے افسر سے موقع دیکھ کر کہا کہ صاحب، میں نے فلاں پل کے نیچے بہت سے دولت گاڑ رکھی ہے۔ آپ وہ بھی لے لیجئے۔ اب میرے تو کسی کام کی نہیں۔ افسر نے کہا ’’پل پر ہمیشہ لوگوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ میں وہاں سے گڑی ہوئی دولت کیسے نکل سکتا ہوں؟‘‘

’’آپ اپنے ساتھ دو چار جوڑے کپڑے لے جائیں۔ ساتھ میں ایک خالی تھیلا بھی لے جائیں۔ سب سمجھیں گے آپ ندی پر کپڑے دھونے گئے ہیں۔ آپ دولت نکال کر تھیلے میں ڈال لیں۔ کپڑے بھی پانی میں گیلے کر کے تھیلے میں ڈال لیں اور تھیلا لے آئیں۔ کوئی آپ پرشک نہیں کر سکتا۔‘‘ قیدی نے ترکیب بتائی۔ افسر نے قیدی کی ترکیب پر عمل کیا اور پل کے نیچے سے دولت نکال لایا۔ اب ان دونوں کی دوستی اور گہری ہو گئی۔

ایک رات افسر اپنے قیدی دوست کے لئے جیل خانے میں شراب لایا۔ دونوں نے بیٹھ کر شراب پی۔ جب افسر کونشہ چڑھ گیا تو قیدی نے اس سے کہا، آج رات مجھے گھر جانے کی اجازت دیجئے، سویرے تک میں لوٹ آؤں گا۔ آپ اپنے دل میں یہ خیال بالکل نہ لائیں کہ میں فرار ہونا چاہتا ہوں، اگر میں فرار ہوتا ہوں تواس کا مطلب ہوگا کہ میں نے اپنے جرم کو قبول کر لیا۔ اور میں بھاگوں کیوں؟ آج نہیں تو کل منصف مجھے رہا کر ہی دے گا، کیوں کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔‘‘

قیدی نے اتنے اعتماد سے یہ بات کہی کہ کوتوال پس و پیش میں پڑ گیا۔ قیدی کے فرار ہونے یا جیل خانے سے باہر جانے کی بات پھیل جاتی تو اس کی ملازمت کو خطرہ ہو سکتا ہے مگر قیدی پر اسے بھروسہ ہو چکا تھا، اس لئے اس نے اسے اجازت دے دی۔

قیدی نے باہر جانے کے لئے دروازے کا استعمال نہیں کیا۔ وہ چھت پر سے کود کر قید خانے سے باہر چلا گیا۔ صبح ہونے سے پہلے وہ واپس بھی آ گیا۔ اس نے خراٹے لے کر سوتے افسر کو جگایا۔

’’لو میں آیا!‘‘افسر نے خوش ہو کر کہا۔

’’آتا کیسے نہیں؟ میرے نہ لوٹنے سے آپ کی عزّت خاک میں مل جاتی۔ مجھے یہ گوارا نہ تھا۔ آپ نے جو احسان مجھ پر کیا ہے اسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا۔ شکریے کے اظہار کے لئے میں آپ کے گھر میں، ایک چھوٹا سا تحفہ دے آیا ہوں۔ آپ گھر جاکر تحفہ دیکھ آئیں۔ مجھے تو اب قید خانے سے جلد ہی رہائی مل جائے گی۔‘‘ قیدی نے کہا۔

قید خانے کا افسر فوراً گھر پہنچا۔ اس کی بیوی نے خوشی خوشی اسے خبر دی۔’’جانتے ہو آج کیا ہوا؟ سویرا ہونے میں تھوڑی دیر باقی تھی کہ روشن دان میں سے ایک گٹھری اندر آ گری۔ میں نے کھول کر دیکھا، اس میں سونے چاندی کی تھالیاں تھیں۔‘‘

افسر سمجھ گیا کہ قیدی اسی تحفے کا ذکر کر رہا تھا۔ اس نے بیوی کو ہدایت دی ۔’’کسی سے اس بات کا ذکر نہ کرنا۔ ان تھالیوں کو چھپا کر رکھ دو۔ جب کچھ وقت گزر جائے گا تب ہم انہیں بیچ کر نقد روپے حاصل کر لیں گے۔‘‘

دوسرے دن عدالت میں کئی فریادی حاضر ہوئے۔ سب کا کہنا یہی تھا کہ رات ان کے گھر سے سونے چاندی کا قیمتی سامان چوری ہو گیا۔ سب کے گھر کی دیواروں پر’’لو میں آیا‘‘ لکھا ہوا تھا۔

منصف نے کوتوال سے کہا ۔’’وہ قیدی صحیح کہتا تھا، وہ ’’لو میں آیا‘‘ نہیں ہے۔ وہ تو قید خانے میں ہے اور’’لو میں آیا‘‘ اب بھی دھڑلے سے چوریاں کر رہا ہے۔ اصلی چور کی تلاش کی جائے اور اس بے گناہ کو آزاد کر دیا جائے۔

قید خانے کا افسر اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ یہی اصلی چور ہے مگر وہ کسی سے اس حقیقت کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اس نے چور سے نہ صرف پہلے بلکہ حالیہ چوری میں سے بھی حصہ حاصل کیا تھا۔ قیدی کو آزاد کر دیا گیا۔

(بھارتی ادیب بانو سرتاج کی بچّوں کے لیے لکھی گئی کہانی)

Comments

- Advertisement -