21.7 C
Dublin
ہفتہ, مئی 18, 2024
اشتہار

بھان گڑھ کا قلعہ: تاریخی حیثیت سے پُراسرار واقعات تک

اشتہار

حیرت انگیز

دنیا بھر میں‌ قلعے اور محلّات موجود ہیں جو ایک طرف تو اپنے زمانے کے بادشاہوں اور امراء کے جاہ و جلال، امارت کی داستان سناتے ہیں اور دوسری جانب ان کے کھنڈرات اپنی شان و شوکت اور اس زمانے کی تاریخ کے گواہ بھی ہیں، لیکن انہی کھنڈرات سے بعض ناقابلِ یقین واقعات اور پُراسرار روایات بھی جڑی ہوئی ہیں۔ ایسا ہی ایک قلعہ بھارت کے صوبۂ راجستھان میں بھان گڑھ کے نام سے موجود ہے۔

بھان گڑھ کا یہ قلعہ سترھویں صدی عیسوی کی یادگار ہے جس کے کھنڈرات جہاں اپنی تاریخی حیثیت کی وجہ سے سیروسیاحت کے لیے آنے والوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں، وہیں اس قلعے کے متعلق عجیب و غریب کہانیاں بھی مشہور ہیں۔

راجستھان بھارت کی وہ ریاست ہے جس پر مختلف ادوار میں‌ مختلف خاندانوں کی شخصیات نے راج کیا اور یہ کئی اعتبار سے تاریخی اہمیت کی حامل اور کئی محلّات و قلعہ، عبادت گاہوں اور اُن مشہور شہروں کی سرزمین بھی ہے جن شہروں میں کشت و خون کا بازار گرم ہوا اور وہاں جنگیں‌ لڑی گئیں۔

- Advertisement -

بھان گڑھ اس ریاست کا وہ مقام ہے جہاں کئی تاریخی عمارتوں کے کھنڈرات موجود ہیں اور بالخصوص 1613ء کا وہ قلعہ دیدنی ہے جسے مؤرخین کے مطابق راجہ مادھو سنگھ نے تعمیر کروایا تھا۔ سترھویں‌ صدی عیسوی کے اس قلعے کو سیاحوں کی توجہ اس لیے بھی حاصل ہے کہ اس کے بارے میں کئی پراسرار کہانیاں مشہور ہیں۔ یہاں آنے والے سیّاحوں کو مقامی گائیڈ اور قرب و جوار کے دیہات میں‌ بسنے والے کئی قصّے سناتے ہیں‌ جن میں‌ ایک یہ ہے کہ قلعہ بھان گڑھ روحوں کا مسکن ہے۔

مؤرخین کے مطابق اس قلعہ کو مغلیہ دور کے ایک سپہ سالار مان سنگھ کے بیٹے مادھو سنگھ نے تعمیر کروایا تھا، لیکن ایک سادھو کی بد دعا کے بعد اس قلعہ کو خالی کر دیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ مادھو سنگھ کے پوتے عجب سنگھ نے اس قلعہ کی دیواریں اتنی اونچی اٹھا دی تھیں کہ اس کا سایہ قریبی مندر میں رہنے والے سادھوؤں پر پڑنے لگا تھا۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ سادھو اس پر بگڑ گئے اور اس کے بعد ہی بھان گڑھ کی بربادی شروع ہوگئی۔ وہاں جو بھی مکان بنایا جاتا اس کی چھت گر جاتی تھی اور ایسے ہی نقصانات مسلسل ہوتے۔ خاص بات یہ ہے کہ آج بھی غروبِ‌ آفتاب کے بعد بھان گڑھ میں انتظامیہ کی جانب سے داخلہ ممنوع ہے۔ محکمۂ آثارِ قدیمہ نے وہاں سیاحوں کے لیے ہدایات آویزاں کررکھی ہیں اور اندھیرا ہونے کے بعد اس قلعے کے اطراف میں‌ داخل ہونے پر قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔

ان باتوں کی حقیقت کچھ بھی ہو، لیکن اس بارے میں مشہور کہانیوں کے مطابق قلعہ تعمیر کرنے سے پہلے یہاں مندر میں ایک سادھو (تانترک) رہتا تھا جس نے راجہ کو اس شرط پر قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی کہ اس کا سایہ مندر پر نہیں پڑے گا، لیکن جب اس راجہ کا پوتا حکم راں بنا تو اس نے گرو بالو ناتھ کی اس شرط کا احترام نہ کیا اور قلعہ کی دیواریں بلند کر دیں اور پھر یہ قلعہ اجڑ گیا۔ بالو ناتھ کی سمادھی آج بھی وہاں موجود ہے۔

ایک اور کہانی یہ ہے کہ بھان گڑھ کی ایک راج کماری رتناوتی کے حسن کا پورے راجستھان میں چرچا تھا۔ اس راج کماری کی 18 ویں سال گرہ پر جب اس کا سوئمور (یعنی دولھا) منتخب کرنے کی تقریب منعقد کی گئی تو عجیب واقعات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دراصل اس علاقہ کا ایک عامل (جادوگر) سنگھیا راج کماری پر فدا ہوگیا تھا، لیکن اسے معلوم تھا کہ اس کا راج کماری کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہے۔ ایک دن سنگھیا نے اس شہزادی کو بازار میں دیکھا جو اپنی نوکرانی کے ساتھ وہاں خریداری کے لیے آتی تھی، اس نے ایک دکان سے اپنی خدمت گار کو کسی تیل کی شیشی خریدنے کو کہا اور اس موقع پر وہاں‌ موجود سنگھیا نے تیل پر کچھ پڑھ کر پھونک دیا یا تیل میں ملا دیا اور راج کماری نے اسے ایسا کرتے دیکھ لیا تھا۔ نوکرانی تیل لے کر راج کمارے کے پاس گئی تو اس نے فوراً وہ شیشی زمین پر الٹ دی اور اس سے تیل زمین پر گرا ایک بڑے پتّھر میں بدل گیا۔ سنگھیا کا کالا علم الٹا ہوگیا اور وہ اس پتھر کے نیچے کچل کر مَر گیا لیکن مرتے مرتے اس نے بد دعا دی کہ اس علاقہ میں رہنے والا کوئی بھی شخص زندہ نہیں بچے گا۔ ایک سال بعد عجب گڑھ اور بھان گڑھ میں لڑائی ہوئی اور راج کماری ماری گئی۔ مقامی افراد کہتے ہیں کہ بھان گڑھ کے قلعہ میں انہی کی ارواح گھومتی ہیں۔

دوسری طرف یہ قلعہ اپنے طرزِ تعمیر میں بھی نہایت منفرد اور بہت خوب صورت ہے جو طویل رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کے وسیع و عریض‌ دالان، کمرے اور کھڑکیاں معماروں کے فن کی بجائے خود تحسین کرتی نظر آتی ہیں۔ بھان گڑھ کا یہ پُراسرار قلعہ اور وہ تاریخی مندر دہلی سے 300 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں