ریاض: سعودی عرب میں ایسے 6 منصوبوں پر کام جاری ہے جو ناصرف مملکت بلکہ اس کی معیشت کو بھی بدل کر رکھ دیں گے، پراجیکٹس اپنی تکمیل کی جانب تیزی سے گامزن ہیں۔
عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق دبئی میں معاشیات کے مشیر ناصر سعیدی کا ماننا ہے کہ سعودی عرب کے ان منصوبوں کو وسیع مفاد میں دیکھنا ہوگا جو مملکت کی معاشی ساخت تبدیل کریں گے، ان اقدامات سے مقامی شہریوں کے لیے روزگار کے بے شمار مواقع بھی میسر آئیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مملکت میں مذکورہ پراجیکٹس سے سیاحت کا شعبہ بھی پروان چڑھے گا، مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ میں بھی اضافہ متوقع ہے، یہ منصوبے عالمی کورونا وبا کے خوف کو کم کریں گے۔
دی ریڈ سی منصوبہ
سعودی عرب میں ‘ریڈ سی’ نامی مغربی ساحل پر 28 ہزار مربع کلومیٹر سائٹ پر ایک پرتعیش پائیدار سیاحتی منصوبہ ہے، 35 ہزار افراد کو براہ راست ملازمت دینے والا یہ منصوبہ بحیرہ احمر کے منظر نامے اور بھرپور ثقافتی ورثے کا ترجمان ہوگا، نوے سے زائد جزیرے اس منصوبے کا حصہ ہوں گے۔
القدية منصوبہ
مملکت میں تفریح، کھیلوں اور فنون کے حوالے سے القدية نامی پراجیکٹ پر کام ہورہا ہے یہ منصوبہ کھیل، تندرستی، فطرت، ماحول، پارکس، پرکشش مقامات، نقل و حرکت، اور فنون اور ثقافت کا شاہکار ہوگا، یہاں خطے کا سب سے بڑا واٹر تھیم پارک بھی بنایا جائے گا۔
عسیر منصوبہ
سعودی عرب کے جنوب مغربی عسیر خطے میں 13 ارب ڈالر کی لاگت سے سیاحتی منصوبے کی تکمیل کی جارہی ہے، پہاڑی چوٹیوں پر یہ پراجیکٹ سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرے گا۔
الدرعية منصوبہ
سعودی دارالحکومت ریاض کے مغربی رنگ روڈ کے ساتھ الدرعية منصوبہ بھی اپنی تکمیل کی جانب ہے، امکان ظاہر کیا گیا ہے اس پراجیکٹ کا پہلا حصہ 2022 کے اوائل تک مکمل ہوجائے گا۔
نیوم منصوبہ
نیوم سٹی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کےوژن 2030 کو مدنظر رکھ کر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ منصوبے کا اعلان 24 اکتوبر 2017 میں کیا گیا تھا۔ اس کا کل رقبہ 26 ہزار 500 مربع کلومیٹر ہو گا۔ اس میں 468 کلومیٹر بحیرہ احمر اور خلیج عقبہ کا ساحلی علاقہ شامل ہے۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ نیوم سٹی تین براعظموں کو ایک دوسرے سے جوڑے گا جس میں مملکت کے علاوہ اردن اور مصر کے علاقے شامل ہوں گے، اس جدید سٹی میں ہر طرح کی سہولتیں میسر آئیں گی۔
امالا منصوبہ
مملکت کے بحیرہ احمر میں امالا انتہائی پرتعیش منصوبہ ہے، یہ پراجیکٹ مہمانوں کو سہولیات اور خدمات پیش کرے گا۔ آرٹس، کلچر، فیشن، فلاح و بہبود اور کھیلوں کی خدمات کے ذریعے لوگ کھچے چلے آئیں گے۔