اسلام آباد: برا ڈشیٹ کیس میں ایک اور انکشاف ہوا ہے، پاکستانی ہائی کمیشن کا ایک اہم خط منظر عام پر آیا ہے، جس نے نیب پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق نیب کے زیر استعمال ہائی کمیشن اکاؤنٹ سے براڈ شیٹ کے لیے 28.7 ملین ڈالرز نکال لیے گئے، اکاؤنٹ میں 26.15 ملین ڈالرز موجود تھے، بقیہ 2.55 ملین ڈالرز راتوں رات بھیج دیے گئے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں نیب کی خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ چندگھنٹے میں 2.55 ملین ڈالرز کی مزید رقم کس کی منظوری سے بھیجی گئی؟ اور کیا نیب نے حکومت پاکستان کو مزید ادائیگی پر آگاہ کیا؟
اس سلسلے میں پاکستانی ہائی کمیشن کا اہم خط منظر عام پر آیا ہے، یہ خط ہائی کمیشن نے نیب، دفتر خارجہ، اٹارنی جنرل اور فنانس ڈویژن کو 30 دسمبر 2020 کو بذریعہ فیکس پاکستان بھیجا تھا۔
براڈ شیٹ کیس، 450 کروڑ روپے کی ادائیگی کے معاملے پر چیئرمین نیب طلب
خط میں کہا گیا تھا کہ یو بی ایل نے براڈ شیٹ کو ادائیگی کے لیے ہمیں خبردار کیا ہے، ہم بینک کو بتا چکے ہیں کہ یک طرفہ ادائیگی پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی، بینک کو یہ بھی بتایا گیا کہ براڈ شیٹ کو یک طرفہ ادائیگی سے تعلقات متاثر ہوں گے، ہم نے ایف سی ڈی او کو بھی لکھ دیا کہ معاملہ برطانوی حکام کے سامنے اٹھائیں۔
پاکستانی ہائی کمیشن نے خط میں لکھا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق ہمیں سفارتی استثنیٰ حاصل ہے، استثنیٰ کے تحت بینک اکاؤنٹس کسی صورت بغیر اجازت استعمال نہیں ہو سکتے، دوسری طرف عدالتی حکم پر نیب کی جانب سے 28.7 ملین ڈالر کی ادائیگی کی جانی ہے، جب کہ پاکستانی ہائی کمیشن کا یہ بینک اکاؤنٹ نیب کے زیر استعمال ہے۔
خط میں کہا گیا کہ نیب کے زیر استعمال ہائی کمیشن اکاؤنٹ میں 26.15 ملین ڈالرز موجود ہیں، عدالتی حکم کے مطابق ادا کی جانے والی رقم میں 2.55 ملین ڈالرز کم ہیں، نیب سے درخواست ہے کہ 2.55 ملین ڈالرز فوری اکاؤنٹ میں منتقل کرے، اگر نیب نے پیسے نہ بھیجے تو حکومت کو قانونی اور مالی معاملات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جاننا چاہتے ہیں براڈشیٹ کو مزید تحقیقات سےکس نےروکا؟ وزیراعظم
خط میں ہائی کمیشن نے بتایا کہ 31 دسمبر کو پاکستانی اکاؤنٹ سے عدالتی حکم پر 28.7 ملین ڈالر نکال لیے گئے تھے۔
تاہم اس سارے معاملے میں اہم سوالات یہ ہیں کہ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں نیب کی خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ چند گھنٹے میں مزید 2.55 ملین ڈالر کی مزید رقم کس کی منظوری سے بھیجی گئی؟ اور کیا نیب نے حکومت پاکستان کو مزید ادائیگی کے بارے میں آگاہ کیا تھا؟
اے آر وائی نیوز کے اینکر ارشد شریف کا کہنا ہے کہ جس براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا وہ 2007 میں ختم ہو گئی تھی، 2008 میں ایک نئی براڈ شیٹ کمپنی رجسٹرڈ ہوئی جس نے کلیم کیا، حکومت پاکستان نے اس کا جواب بھی دیا، دراصل نئی براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تھا نہ وہ کلیم کر سکتی تھی۔
انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا 2008 میں نئی رجسٹرڈ کمپنی کو حکومت نے کسی جگہ چیلنج کیا؟ جب کہ براڈ شیٹ کیس کے دوران وزارت خزانہ اور خارجہ میں خطوط موجود ہیں، خطوط میں مسلسل کہا گیا کہ اکاؤنٹس میں اتنا پیسہ رکھیں جتنا استعمال میں ہو۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی نے برطانوی نجی فرم براڈ شیٹ کو 450 کروڑ روپے کی ادائیگی کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے 18 جنوری کو پارلیمنٹ ہاؤس میں کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے، جس میں چیئرمین نیب کو طلب کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ براڈ شیٹ کمپنی کے سی ای او کیوے موسوی نے چند دن قبل ایک انٹرویو میں بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے نواز شریف، آصف زرداری، بے نظیر بھٹو اور دیگر کے اثاثوں کا پتا لگانے کے لیے براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کی تھیں، تاہم نواز شریف کی جلا وطنی اور انتخابات کے بعد 2003 میں حکومت نے کمپنی سے یہ معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔
اپنے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ آصف زرداری نے اپنے ملک پاکستان کا نام بدنام کیا، ہم نے جن جائیدادوں کا سراغ لگایا آصف زرداری نے اپنے دور حکومت میں انھیں بحال کرایا، پیغام یہ تھا کہ جائیدادوں سے متعلق مزید تفتیش نہ کی جائے، ہمیں کہا گیا کہ 25 ملین ڈالرز لے لو اور معاملہ ختم کر دو، انجم ڈار سے اس سلسلے میں ملاقات بھی ہوئی، جس کا گواہ موجود ہے، اس نے 25 ملین ڈالرز کی پیش کش کی۔