اشتہار

’’دیوارِ چین سے بت خانۂ چین تک‘‘(سفر نامہ)

اشتہار

حیرت انگیز

جمالیاتی حسن کی حِس تو ہر ذی شعور انسان میں پائی جاتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے وہ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن جمالیات سے متعلق عام قاری کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر یہ ہے کیا؟

جمالیات فنی اعتبار سے فلسفہ ہے جو کسی بھی قلم کار کے ادب یا شاعری میں اور ان کے فن میں چھپے ہوئے حسن کو اخذ کر کے اس کے لئے اصول و ضوابط متعین کرتی ہے۔

عام قارئین تو بہت کم مگر تاریخ، تحقیق اور ادب کے طالبِ علم پروفیسر شکیل الرحمٰن کے نام اور ان کے کام سے کسی قدر واقف ہوں‌ گے جن کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ جمالیات ان کا اوڑھنا بچھونا ہے اور آج بھی جب کسی مضمون اور مقالہ میں لفظ جمالیات کو بطور اصطلاح پڑھتے ہیں‌ تو ذہن میں پروفیسر صاحب کا نام آتا ہے۔ شکیل الرحمٰن بھارتی حکومت کی جانب سے 1990ء میں چین گئے تھے۔ اس سفر میں‌ انہوں نے جو مقامات دیکھے، جن لوگوں سے ملاقات کی ان کے بارے میں اور اپنی معلومات اور مشاہدے کی بنیاد پر چین کی تاریخ و ثقافت، تہذیب و تمدن اور ماضی و حال کو اپنی کتاب ’’دیوارِ چین سے بت خانۂ چین تک‘‘ کے عنوان سے رقم کیا۔ ان کا یہ سفر نامہ ہمیں جہاں‌ چین کی سیر کرواتا ہے وہیں فن و ادب میں جمالیات کو بطور اصطلاح بھی سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس سفرنامے سے چند اقتباسات پیشِ‌ خدمت ہیں۔

- Advertisement -

یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ دنیا کی بے شمار پُرشکوہ عمارتیں، مسجد، مندر، گرودوارے اور گرجا گھر، بلند و بالا قطب مینار سے لے کر ایفل ٹاور تک، مجسمے اور نہ جانے کتنے ہی فن تعمیر کے شاہکار انسانی ہاتھوں‌ سے ڈھالے گئے ہیں۔ لیکن کوئی دیوار، سوائے دیوار چین کے اس کرۂ ارض پر ایسی نظر نہیں آتی جو اپنے جمالیاتی حسن کا مثالی درجہ رکھتی ہو۔ دیوار چین برس ہا برس سے پہاڑی سلسلوں کے ساتھ حسین وادیوں میں ڈوبتی ابھرتی، بل کھاتی لوگوں کو میلوں کی مسافت طے کراتی چلی جا رہی ہے۔

شکیل الرحمٰن اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ دیوار چین دو ہزار سال سے زیادہ قدیم اور چھ ہزار کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے۔ اس کی تعمیر کے لئے چھتیس سال کا عرصہ درکار ہوا تھا۔ دیوار پر چڑھنے اور اس پر چہل قدمی کے اپنے تجربات کو انھوں نے یوں قلم بند کیا ہے:

’’دیوار چین پر چڑھنے کے کئی راستے ہیں۔ زینے بنے ہیں۔ میں نے ایک راستے کو منتخب کیا اور آہستہ آہیستہ چڑھنے لگا۔ بڑے اور چوڑے زینے ہیں۔ کچھ دور اوپر چڑھ کر دم لینے کے لئے جگہیں بنی ہوئی ہیں۔ دس بیس زینے طے کر کے تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے رکتا رہا۔ زینوں پر مقامی لوگوں نے مختلف چیزوں کی چلتی پھرتی دکانیں کھول رکھی ہیں۔ اوپر چڑھتے ہوئے بڑا لطف آیا۔ کئی جگہوں پر آرٹسٹ اور مصور دکان سجائے بیٹھے تھے جو آٹھ دس منٹ میں اسکیچ بنا دیتے تھے۔ ایک جگہ رکا تو ایک چینی مصور نے دس منٹ میں میرا چہرا بنا دیا، تیزی اور صفائی دیکھ کر حیرت انگیز مسرت ہوئی۔ دیوار چین کی یہ یادگار میرے پاس محفوظ ہے۔ بلندی پر پہنچ کر جب ہر جانب دیکھا تو لگا جیسے فطرت نے مجھے آغوش میں لے لیا ہے۔ بڑی آسودگی مل رہی تھی۔ ہوا بہت تیز تھی۔ آخری مقام پر کچھ دیر تک رک کر پھر آہستہ آہستہ نیچے اتر نے لگا۔ ایک بڑی آرزو پوری ہوئی تھی۔ دیوار چین پر چڑھنے کا ایک عدد سرٹیفیکٹ ملا، ایک خوبصورت سرٹیفیکٹ۔ میں دیوار چین کا ایک ماڈل لیے قیام گاہ کی طرف روانہ ہوا۔‘‘

اس دورۂ چین میں شکیل الرحمٰن نے بدھ مصوری کا بھی مطالعہ کیا۔ اس سے متعلق لکھتے ہیں: ’’بدھ مصوری کو زندہ رکھنے کے لئے مختلف ملکوں اور علاقوں کے تاجر مالی مدد کرتے رہے۔ ایک راہب نے خواب میں بادلوں کے اوپر تیرتے ہوئے ہزاروں بدھ دیکھے تھے۔ فن کار اس بات کی مسلسل کوشش کرتے رہے کہ یہ سارے بدھ نقش ہو جائیں۔ پتھروں کو تراش کر بھی بدھ کے پیکر بنائے گئے۔ بدھ بھکشوؤں کے ہزاروں پیکر مجسموں اور تصویروں میں ابھار ے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک راہب جو ہندوستان سے چین پہنچا تھا اور جس کا نام یوزن تھا، اسی نے 366ء میں یہاں غار کے اندر پیکر تراشی کی حوصلہ افزائی کی۔ چینی مصوری کے فن میں ماہر ہیں، لہذا انہوں نے بدھ اور بدھسٹوں کے پیکروں کو اپنا آہنگ بھی دیا ہے۔ لکیروں اور رنگوں میں اس آہنگ کو محسوس کیا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے ان غاروں کے چند نقوش کی تصویریں بیجنگ میں دیکھنے کو ملیں، بس جی خوش ہو گیا۔ ‘‘

شکیل الرحمٰن لکھتے ہیں کہ چینی ذہن کی بیداری اور وہاں کے فن کاروں کی تخلیقی صلاحیتوں کا احساس انہیں اس وقت ہوا جب وہ شنگھائی پہنچے۔ اس کے علاوہ انہیں چین کے لوگوں کے ثقافتی اور تمدنی سطح پر عمدہ برتاؤ کے معیار کا پتہ بھی چلا۔ چینی لوگ بڑے محنتی اور جفا کش ہوتے ہیں۔ وہ مایوس اور ناامید ہونا نہیں جانتے۔ یہاں تک کہ سیلاب اور طوفان سے فصلوں کے متاثر ہونے پر بھی وہاں کے کسان مایوس نہیں ہوتے۔ تباہی کے باوجود اپنی ہمت جٹاتے ہیں اور محنت اور مشقت کے لئے دوبارہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

شکیل الرحمٰن دوران سفر بیجنگ میں شہر ممنوعہ (Forbidden City) میں داخل ہوئے تو انہیں چین کے قدیم معماروں اور محنت کشوں کے احساس جمال اور احساس جلال سے نہ صرف واقفیت حاصل ہوئی بلکہ ان کے فن تعمیر سے وہ متاثر بھی ہوئے۔ شہر ممنوعہ دراصل شاہی قلعہ ہے جس کے بارے میں انہیں پتہ چلا کہ یہ ساری دنیا کا سب سے قیمتی اور بڑا قلعہ ہے۔ اس میں آٹھ سو عمارتیں اور نو ہزار کمرے ہیں۔ اس قلعے سے چین کے شہنشاہ پانچ سو سال تک حکومت کرتے رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ شہر ممنوعہ کا قلعہ چودہ برس کے عرصے میں 1420ء میں تکمیل کو پہنچا۔ اس کی تعمیر میں لاکھوں معمار، فن کار اور مزدوروں نے حصہ لیا تھا۔ اس میں لکڑی پر رنگوں کی آمیزش کو جو فروغ دیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں خوبصورت رنگوں اور ان کی آمیزشوں کا بہت ہی عمدہ مظاہرہ کیا گیا ہے جس کا جمالیاتی حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس قلعہ کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ دنیا میں لکڑی کے اس قدر بڑے کام کے ساتھ ایسا قلعہ کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’شہر ممنوعہ‘‘ عمارت سازی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ دروازوں اور دریچوں کو پر کشش بنانے کے لئے خوبصورت رنگ استعمال کئے جاتے ہیں اور پیکر ابھارے جاتے ہیں۔ شہر ممنوعہ جو دس ہزار مربع فیٹ کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے چینی عمارت سازی کے تمام حسن کو جلوہ گر کر دیتا ہے۔ دروازے، ہال، کمرے، چھتیں سب چینی احساس جمال کے نمونے ہوتے ہیں۔‘‘

شکیل الرحمٰن نے چین کے اپنے سفر میں یہ محسوس کیا کہ فنون لطیفہ میں وہاں کے لوگوں کی ہمیشہ ہی دلچسپی رہی ہے۔ یہاں تک کہ چینی مصوری نے وسط ایشیا اور ایران کی مصوری کو بھی بڑا متاثر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ چینی فن بڑا نازک بھی ہے اور باریک بھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس فن مصوری میں جیسے فن کار کی روح اتر آئی ہو۔ چینی مصوری میں شاعری اور فن خطاطی کی جمالیات کی آمیزش رہتی ہے اور خود فن خطاطی میں مصوری اور شاعری شامل رہتی ہے۔ الغرض چین کے تمام فنون میں چاہے وہ مصوری ہو کہ شاعری، خطاطی ہو کہ فن تعمیر سب میں تخیل کے آہنگ کی پہچان ہوتی ہے جو ان کے خیال میں سب سے بڑی صفت ہے۔ یہاں تک کہ برتنوں کی تزئین و آرائش میں بھی مصوری کے فن کو بڑا فروغ حاصل ہوا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں