اسلام آباد : سرکاری اداروں میں بھرتیوں پر پابندی کیس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے پابندی کی وضاحت مانگ لی، چیف جسٹس نے کہابتایا جائے پابندی لگانے کا اختیار کہاں سے آیا،فیصلے کی وضاحت ہونی چاہیے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں سرکاری اداروں میں تقرریوں اور تبادلوں پر پابندی سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے سرکاری اداروں میں تبادلوں،تقرریوں اور بھرتیوں پر پابندی کس قانون کے تحت لگائی؟ بعض اہم اداروں میں سربراہان کی تقرریوں کا عمل چل رہا ہے، کیا الیکشن کمیشن کی پابندی کا اطلاق ان اداروں پر بھی ہوگا ؟پابندی کے فیصلے کی وضاحت ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا پہلےبتائیں الیکشن کمیشن کےپاس پابندی کااختیارکہاں سےآیا؟ جس پر سیکریٹری الیکشن کمیشن نے جواب میں کہاشفاف انتخابات کمیشن کی ذمہ داری ہے ،الیکشن ایکٹ دو سو سترہ بھی الیکشن کمیشن کو اختیارات دیتا ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ بھرتیوں پر پابندی کااختیار کس قانون میں ہے؟ اسمبلیاں تحلیل ہونے سےپہلے کیاایسا حکم دیا جاسکتاہے ؟کیااس طرح کافیصلہ حکومت کے امور کومتاثرنہیں کرے گا ؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نوکریاں الیکشن سے پہلےنہ دینا یہ اچھی بات ہے،مگر ایسی پابندی کی وضاحت ہونی چاہیے، آج سےپہلےکبھی ایسے نقطے کی وضاحت نہیں ہوئی، جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا وفاق نےبعض بھرتیوں پراجازت مانگی تھی۔
مزید پڑھیں : انتخابات میں پری پول ریگنگ روکنے کے لیے الیکشن کمیشن نے سرکاری ملازمتوں پر پابندی عائد کردی
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹس جنرلز کو نوٹسزجاری کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس کاسرکاری اداروں میں بھرتیوں پرپابندی کاازخودنوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا تھا۔
واضح رہے کہ عام انتخابات میں پری پول ریگنگ روکنے کے لیے الیکشن کمیشن نے سرکاری ملازمتوں پر پابندی عائد کردی تھی، پابندی کا اطلاق وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے اداروں میں بھرتیوں پر ہوگا، صوبائی پبلک سروس کمیشن کے تحت ہونے والی بھرتیوں پرنہیں ہوگا۔