تازہ ترین

اسحاق ڈار ڈپٹی وزیراعظم مقرر

وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر کر دیا...

جسٹس بابر ستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر ہائیکورٹ کا اعلامیہ جاری

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی...

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب، صدر اسلامی ترقیاتی بینک کی ملاقات

وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوسرے...

وزیراعظم شہباز شریف آج ریاض میں مصروف دن گزاریں گے

وزیراعظم شہباز شریف جو کل سعودی عرب پہنچے ہیں...

وزیر اعلیٰ کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست: سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی

لاہور: وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی گئی، عدالت نے پرویز الٰہی کے وکیل کو ہدایات لینے کی مہلت دی ہے۔

تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت شروع ہوتے ہی بینچ کے رکن جسٹس فاروق حیدر نے کیس کی سماعت سے انکار کر دیا، لارجر بینچ کا کہنا تھا کہ جسٹس فاروق حیدر کچھ کیسز میں پرویز الٰہی کے وکیل رہ چکے ہیں، جسٹس فاروق حیدر اس کیس کی سماعت نہیں کرنا چاہتے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عابد عزیر شیخ نے کہا کہ کیس کی سماعت کے لیے نیا بینچ بنایا جائے۔

نیا بینچ بنانے کے بعد سماعت دوبارہ شروع کی گئی۔

پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر اور عامر سعید اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس عدالت میں پیش ہوئے۔

پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی الیکشن کے نتیجے میں جولائی 2022 میں وزیر اعلیٰ بنے، پرویز الٰہی نے 186 ووٹ لیے جس میں سے اسپیکر نے 10 ووٹ منہا کیے، ڈپٹی اسپیکر کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت نے پرویز الٰہی کو ووٹ دینے سے روکا ہے۔

علی ظفر کے مطابق اس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ گیا جہاں ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا، سپریم کورٹ نے کہا کہ پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کے دو طریقے ہیں، ایک طریقہ تحریک عدم اعتماد ہے جس کے کامیاب ہونے کی صورت میں وزیر اعلیٰ کو عہدے سے ہٹایا جائے گا، گورنر وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے، اعتماد کے ووٹ کے لیے اجلاس بلایا جاتا ہے جس میں یہ کارروائی ہوتی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر مدت کا تعین نہیں کر سکتا، گورنر کو اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت دینا چاہیئے۔ اسملبی اسپیکر دن مقرر کرے، وزیر اعلیٰ کہے ووٹ نہیں لیتا پھر کارروائی ہو تو الگ بات ہے، لیکن اسپیکر نے اجلاس ہی نہیں بلایا اور گورنر نے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی میں تنازع ہے، سپریم کورٹ اس معاملے پر فیصلہ دے چکی ہے کہ اس تنازع کی اہمیت نہیں۔

عدالت نے دریافت کیا کہ اگر اسمبلی کا سیشن چل رہا ہو تب کیا کیا جائے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پہلے اسپیکر کو اجلاس ختم کرنا ہوگا۔

عدالت نے کہا کہ اگر سیشن چل رہا ہے تو کیا مضائقہ ہے کہ اعتماد کا ووٹ لیا جائے، جب پہلے ہی سیشن چل رہا ہو تو پھر رولز کا کیا مسئلہ رہ جاتا ہے جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ آئینی تقاضہ ہے کہ اجلاس بلایا جائے۔

عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ اسمبلی نے ہی حل کرنا ہے، اسپیکر گورنر کے حکم کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر منتخب ہو کر نہیں آتا بلکہ وزیر اعظم کی سفارش پر بنتا ہے، اب گورنر نے صرف پرویز الٰہی کو اگلے وزیر اعلیٰ کے انتخاب تک کام کرنے کی اجازت دی، کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک لیٹر سے منتخب وزیر اعلی اور کابینہ کو باہر نکال دیا جائے۔

عدالت نے کہا کہ ہم یہ آرڈر معطل کر دیں اور کابینہ بحال کر دیں تو کیا آپ ووٹ سے پہلے اسمبلی تحلیل کر دیں گے؟ کیا آپ اس پر بیان حلفی دینے کو تیار ہیں۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ہم کچھ پابندیوں کے ساتھ اس پر حکم دیں گے، نوٹیفکیشن پر عملدر آمد روک دیں اور آپ اسمبلیاں توڑ دیں تو نیا بحران پیدا ہوگا۔

ہائیکورٹ نے پرویز الٰہی کے وکیل کو ہدایات لینے کے لیے مہلت دے دی، سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔

Comments

- Advertisement -