یہ 2004ء کی بات ہے جب جان پرکنز کی کتاب Confessions of an Economic Hitman شایع ہوئی اور اس کتاب نے تہلکہ مچا دیا۔ یہ کتاب جس موضوع کا احاطہ کرتی ہے، اس کا ہر پاکستانی سے براہِ راست تعلق ہے۔ یہ کتاب دراصل عالمی مالیاتی اداروں کے عفریت پر لکھی گئی ہے۔
بتاتے چلیں کہ اس کتاب کے پاکستان میں متعدد اور مختلف نام سے تراجم دست یاب ہیں۔ ان میں ’’اقتصادی غارت گر‘‘ کے نام سے ترجمہ صفوت علی قدوائی کا ہے جو اس کے قارئین پر بہت کچھ منکشف کرتا ہے۔ مترجم نے اس کے ابتدائیہ میں لکھا ہے، ’’پاکستانی حکمران معیشت کے استحکام اور کشکول توڑنے کے جتنے بھی دعوے کریں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری معیشت صارفین کی ایسی منڈی بن چکی ہے جہاں ہر چیز بکاؤ ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پرتعیش گاڑیوں سے لے کر مہنگے سامانِ آسائش تک زندگی کی ہر ضروری اور غیر ضروری چیز ادھار پر دستیاب ہے۔ پوری قوم قرضے کے جال میں پھنس گئی ہے اور ہم اپنی آزادی اور خودمختاری عرصہ ہوا ان بین الاقوامی اداروں کے پاس گروی رکھ چکے ہیں۔
جان پرکنز کی کتاب کا موضوع تیسری دنیا میں عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور مالی امداد کرنے والی مختلف تنظیموں کا وہ جال ہے کہ جس میں آج پاکستان اور اس جیسے کئی ممالک جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ کتاب اکنامک ‘ہٹ مین’ یعنی معاشی قاتل کی ایک اصطلاح بھی سامنے لاتی ہے۔ جان پرکنز بھی کبھی امریکہ کی طرف سے اکنامک ‘ہٹ مین’ رہا تھا۔
آج پاکستانی روپے کی بے قدری اور ڈالر کی اونچی اڑان سے ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے، اس میں غریب اور متوسط طبقہ صرف یہی سوچ رہا ہے کہ جسم و جاں رشتہ کیسے برقرار رکھا جائے۔ دوسری طرف سیاست دان ہیں، اشرافیہ اور وہ لوگ ہیں جو ہر قسم کے وسائل پر قابض اور بااختیار بھی ہیں۔ انھوں نے دھن دولت جمع کرنے کے ذرایع اور تمام اسباب کو اپنی مٹھی میں رکھا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تجوریاں بھرتی چلی جارہی ہیں، دوسری طرف عوام ہیں جو نان شبینہ کو محتاج ہوئے جاتے ہیں۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں غربت بڑھ کر 39.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے، اور مزید سوا کروڑ افراد غربت کے شکنجے میں آگئے ہیں۔ یہ رپورٹ چند روز قبل ہی سامنے آئی ہے۔ لیکن اسی ملک کے سیاست داں، سرکاری عہدے دار اور مراعات یافتہ طبقہ کے عیش و عشرت کا ہی کہنا۔ معمولی کٹوتی پر بڑی سی اقامت گاہ جس میں بجلی کے کئی یونٹ مفت، بڑی بڑی گاڑیاں اور ان کے لیے پیٹرول گویا ان کا حق ہے۔ اس کے بعد بالخصوص سرکاری اداروں میں مالی بدعنوانی اور رشوت ستانی ایک الگ باب ہے۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جس میں اقتدار کی باریاں لینے والی بڑی جماعتوں کے ‘پیشہ ور’ سیاست داں اپنے ووٹروں کو یہ نہیں بتاسکتے کہ وہ ان کو قرضوں کی دلدل سے کب اور کیسے نکالیں گے۔ البتہ، اقتدار میں آکر سابق حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں کا ڈھول بڑے زور سے پیٹا جاتا ہے، اور اسی شور میں یہ اعلان کر دیا جاتا ہے کہ معیشت کو پٹری پر ڈالنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لینا ہوگا۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہی ہوتا ہے کہ عوام پر محصولات کی مد میں مزید بوجھ اٹھانا ہوگا۔ اس کے بعد بجلی، گیس اور پیٹرول سمیت ہر قسم کا ایندھن اور کئی دوسری اشیاء پر ٹیکس عائد کر دیا جاتا ہے۔
ماہرینِ معیشت کہتے ہیں کہ ”آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی اداروں کو فکر صرف قرضوں کی واپسی کی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں روپے کی قدر کم کرنا پڑتی ہے۔ منافع بخش اداروں کو بیچنا پڑتا ہے۔ پیٹرول، ڈیزل مہنگا اور شرح سود کو بڑھانا پڑتا ہے۔ نتیجہ اس کا معیشت کو بھی نقصان اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافے کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔‘‘
معیشت کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ قرض سے جان چھڑانا اور اس مسئلے کو حل کرنا آسان نہیں لیکن اگر ہم مالیاتی اداروں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، ہمیں ٹھوس اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ مقامی صنعت کاروں کو مضبوط کیا جائے، سرمایہ دار اور طبقۂ امراء کو مخصوص ٹیکس دینے پر آمادہ کیا جائے، لگژری مصنوعات کی درآمدات بند، سرکاری خزانے پر شاہانہ طرزِ زندگی اور بھاری مراعات کا خاتمہ کرکے ہی اس میں کام یابی ممکن ہے۔‘‘
اعلیٰ سرکاری عہدے داروں کو سہولیات اور مراعات کی ایک جھلک پچھلے ہفتے ہی دیکھی گئی جب صوبۂ پنجاب کے ایک ضلعی منصب دار نے ایکس (ٹویٹر) پر ویڈیو لگائی کہ ’نئی سرکاری گاڑی ملی گئی۔ شکر گزار ہوں۔‘ اس ویڈیو میں کالے رنگ کی ایک نئی ڈبل کیبن گاڑی دیکھی جا سکتی ہے جس کی چھت پر نیلی بتّی لگی ہوئی ہے۔ یہ ویڈیو ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی صرف ایک تحصیل پیر محل کے اسسٹنٹ کمشنر کے ذاتی اکاؤنٹ پر نشر ہوئی تھی جس پر پاکستانی صارفین کی جانب کڑی تنقید کی گئی اور یہ ویڈیو ہٹا لی گئیں۔ جب ایک ڈیڑھ کروڑ یونہی خرچ کیے جارہے ہوں اور وہ بھی اسسٹنٹ کمشنر پر تو اس سے بڑے عہدے دار کیا کچھ نہیں سمیٹ رہے ہوں گے؟
پچھلے دنوں بجلی کے مفت یونٹس پر بھی سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام نے اشرافیہ اور سرکاری افسران کی بے حسی اور عیاشیوں پر خوب برہمی اور شدید غم و غصّے کا اظہار کیا تھا۔ اور بظاہر عوام کے نگراں ‘خیرخواہوں’ نے اس کا نوٹس بھی لیا، لیکن آگے کیا ہوا؟ یہ پوچھنے اور جاننے میں اب شاید عوام کو بھی دل چسپی نہیں رہی۔ بیچارے عوام پوچھیں بھی تو کس سے کہ حکم راں اور سرکاری افسر ان کو جواب دہ تھوڑا ہی ہیں۔
ہمارا ایک بڑا مسئلہ کرپشن (لوٹ کھسوٹ) بھی ہے۔ بددیانتی، خیانت اور عوام کا مال ہڑپ کر جانے کی یہ عادت سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کو ایسی پڑی ہے کہ وہ کسی طور اسے چھوڑنے کو تیّار نہیں۔ حال تو یہ ہے کہ اگر ملک میں لوٹ کھسوٹ کی شفاف اور ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو کر تحقیقات کرائی جائے تو ہمارے یہ سب ‘خیر خواہ اور خادم’ قانون کے مطابق جیل بھیجے جائیں۔ ہمارے مروجہ نظام میں کرپشن کے سرایت کرجانے سے کی وجہ سے آج مالی وسائل کا بہت بڑا حصّہ مفاد پرست گروہوں اور بااثر افراد کی جیب میں جارہا ہے۔ پھر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ صرف مالی معاملات میں بدعنوانی ہی کرپشن نہیں ہے بلکہ اس کے بے شمار روپ ہیں جس میں خسارہ ملک اور قوم کے حصّے میں آتا ہے۔
عالمی مالیاتی اداروں کا قرض لوٹانے کے علاوہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ بھی قومی ایجنڈے کا حصّہ اور ہماری اوّلین ترجیح ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری اداروں کے مالیاتی امور، تمام معاہدوں، ٹھیکوں اور مخصوص بجٹ میں شفافیت کا اہتمام کیا جائے۔ اداروں کا کمپیوٹرائز ریکارڈ مرتب کیا جائے اور کسی بھی شہری کو اس کا جاننے کا حق استعمال کرنے دیا جائے۔