واشنگٹن: کرونا وائرس نے دنیا بھر کے طبی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے، حال ہی میں امریکا میں وائرس کی موجودگی کے حوالے سے ایک پریشان کن تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
جرنل آف میڈیکل انٹرنیٹ ریسرچ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس امریکا میں دسمبر کے آخر میں پھیلنا شروع ہوچکا تھا۔ مقامی سطح پر پھیلنے والے کیسز فروری کے آخر میں سامنے آئے تھے مگر اپریل میں بتایا گیا تھا کہ یہ بیماری وہاں جنوری میں پہنچ چکی تھی۔
امریکا میں کووڈ 19 کا پہلا مصدقہ کیس جنوری میں اس وقت آیا تھا جب ووہان سے واشنگٹن آنے والے ایک شخص میں 19 جنوری کو اس کی تشخیص ہوئی۔
تاہم مذکورہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ درحقیقت یہ بیماری وہاں اندازے سے پہلے پھیلنا شروع ہوچکی تھی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 22 دسمبر سے امریکا کے مختلف طبی مراکز اور اسپتالوں میں نظام تنفس کی بیماری کے شکار افراد کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔
تحقیق میں شامل محقق ڈاکٹر جو آن ایلمور کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ریکارڈ کا جائزہ اس وقت لینا شروع کیا جب مارچ میں ان کے طبی مرکز کے پریشان مریضوں کی جانب سے مسلسل ای میلز کی گئیں۔
یہ مریض مسلسل پوچھ رہے تھے کہ کیا جنوری میں جو انہیں کھانسی تھی وہ کووڈ 19 کی وجہ سے تو نہیں تھی۔ اس پر کیلیفورنیا یونیورسٹی کی وبائی امراض کی ماہر نے تحقیق کا آغاز کیا۔
محققین نے دسمبر 2019 سے فروری 2020 کے دوران نظام تنفس کے کیسز میں اضافے کو دیکھا جبکہ اس دوران کھانسی کے بارے میں انٹرنیٹ سرچز بھی بڑھ گئیں۔
انہوں نے اس دریافت کا موازنہ گزشتہ 5 سال کے ریکارڈز سے کیا تو دریافت ہوا کہ عام معمول کے مقابلے میں کھانسی کی شکایت کے ساتھ آنے والے مریضوں کی شرح میں 50 فیصد اضافہ ہوا، یعنی اوسطاً عام حالات کے مقابلے میں ایک ہزار زیادہ مریض علاج کے لیے آئے۔
اسی طرح نظام تنفس کی شکایت کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہونے والے افراد کی تعاد کی شرح میں بھی گزشتہ 5 سال کے مقابلے میں دسمبر 2019 سے فروری 2020 کے دوران اضافہ دیکھنے میں آیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان میں سے کچھ کیسز ممکنہ طور پر فلو کے تھے جبکہ دیگر کی وجوہات الگ تھیں، مگر اس دورانیے میں اتنے زیادہ میں کیسز قابل توجہ ضرور ہیں۔
محققین کو توقع ہے کہ اس تحقیق سے کووڈ 19 کے ریئل ٹائم ڈیٹا کو دکھایا جاسکے گا اور ماہرین کے لیے مستقبل میں امراض کو پھیلنے سے روکنے یا اس کی رفتار سست کرنے میں مدد مل سکے گی۔