پیر, جنوری 13, 2025
اشتہار

دس روز کی مہلت (ایک سبق آموز کہانی)

اشتہار

حیرت انگیز

یہ بہت پرانی کہانی ہے جس میں‌ ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں سے سمندر پار، بہت دور کسی سلطنت کا بادشاہ طبیعتاً زود رنج اور مزاجاً جارح تھا۔ اپنی رائے سے اختلاف اسے ناپسند تھا۔ اگر کسی وزیر، درباری اور خادم سے کوئی غلطی اور کوتاہی سرزد ہوجاتی تو سخت سزا دینے سے نہ چوکتا۔

بادشاہ اگرچہ ظالم نہیں تھا، مگر اپنے ریاستی امور اور اپنی ذات سے متعلق کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ رعایت اور نرمی برتنے سے درباری اس پر حاوی ہوسکتے ہیں۔ وہ کسی بات پر بگڑتا تو ایسا بگڑتا کہ لوگوں کے سَر ان کے شانوں سے اتروانے میں‌ ذرا دیر نہ کرتا۔ بادشاہ نے دس جنگلی کتّے بھی پال رکھے تھے۔ ان خونخوار کتّوں کو خاص تربیت دی گئی تھی اور وہ بادشاہ کے حکم پر اپنے سامنے پھینکے گئے آدمی کو بھبھوڑ ڈالتے۔ ظاہر ہے ایک مجبور اور بے بس انسان ان کتّوں کے آگے کیا کرسکتا ہوگا۔ کتّوں کے نوکیلے دانت اور پنجوں سے گھائل ہونے کے بعد موت ایسے آدمی کا مقدر بن جاتی۔ بادشاہ کے خادمین اور نوکروں سب کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے کان کھلے رکھیں اور بادشاہ کے روبرو حاضر باش رہیں تاکہ کسی موقع پر غلطی سے بچ سکیں۔ وہ خوب سوچ سمجھ کر کسی بات کا جواب دیتے اور ہمیشہ بادشاہ کی خوشامد میں لگے رہتے تھے۔

مزید دلچسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے
ایک روز کسی نوکر کی شامت آئی اور اس نے بادشاہ کا کوئی کام انجام دیتے ہوئے کسی بات پر اپنی رائے کا اظہار کردیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات تھی مگر بادشاہ کو نوکر کے خیالات نے برافروختہ کردیا۔ اس نے کچھ کہے سنے بغیر بیک لحظہ نوکر کو کتّوں کے باڑے میں پھینک دینے کا حکم جاری کردیا۔ بادشاہ کے کمرے کے باہر موجود سپاہی آواز سن کر دوڑے آئے اور نوکر کو پکڑ لیا۔ نوکر کی رنگت زرد پڑ چکی تھی۔ موت اس کے سَر پر تھی۔ مگر اس نے ہمّت کرکے بادشاہ کو مخاطب کیا اور اپنی آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے کہا، ”حضور! میں نے دس سال آپ کی خدمت کی، آپ مجھ پر اتنا رحم ضرور کریں ان خونخوار کتوں کے سامنے پھینکنے سے پہلے دس دن کی مہلت دے دیں! بادشاہ کچھ سوچ کر اس پر رضامند ہوگیا۔ اب نوکر دس دن کے لیے آزاد تھا۔

- Advertisement -

نوکر اسی روز کتّوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے پاس پہنچا اور اس سے سارا ماجرا بیان کر کے درخواست کی کہ وہ اگلے دس دنوں تک کتّوں کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہے۔ کتّوں کا رکھوالا اس پر راضی ہو گیا۔ وہ معتوب نوکر روز باڑے میں جاتا اور کتّوں کو کھانا کھلاتا، ان کو نہلاتا اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزار کر اپنے گھر لوٹ جاتا۔

جب دس دن پورے ہوئے تو بادشاہ نے اس نوکر کو طلب کیا اور کہا کہ وہ سزا بھگتنے کو تیار ہوجائے۔ نوکر نے گردن جھکا کر تعظیم کی اور سپاہی اسے پکڑ کر لے گئے۔ اسے کتّوں کے باڑے میں دھکیلا گیا تو وہاں موجود عملہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جنگلی کتّے اس کے آگے پیچھے دُم ہلاتے ہوئے گھوم رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔ نوکر ان کے کتّوں کے درمیان کھڑا مسکرا رہا تھا۔

بادشاہ تک یہ خبر پہنچی تو وہ بھی حیران ہوا اور بولا۔ ’’میرے ان خونخوار کتوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ اس آدمی کو نقصان پہنچانے سے گریزاں ہیں؟‘‘

پہرے دار بادشاہ کو اس بارے میں کیا بتاتے۔ وہ لاعلم تھے کہ نوکر نے دس روزہ مہلت میں ان کتّوں کو اپنا دوست بنا لیا تھا۔ یہ بات صرف کتّوں کا رکھوالا اور چند دوسرے محافظ جانتے تھے۔ بہرحال، بادشاہ نے نوکر کو دربار میں طلب کیا اور اس بابت سوال کرنے پر نوکر نے بتایا، "حضور! جان کی امان پاؤں تو ایک خطا اور کی ہے، جو آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپ سے جو دس روز کی مہلت طلب کی تھی، اس میں ان کتوں کی خدمت کرتا رہا، اور آج جب ان کے سامنے مجھے پھینکا گیا تو یہ نتیجہ نکلا، وہ میری دس روزہ خدمت نہیں بھولے۔ میں نے پورے دس سال آپ کی خدمت کی اور ایک معمولی غلطی پر آپ نے مجھے موت کے منہ میں‌ ڈال دیا۔” نوکر کی اس جسارت پر درباری دم بخود رہ گئے اور خیال کیا کہ اب بادشاہ اس کے ساتھ نہایت برا سلوک کرے گا۔ ادھر بادشاہ اپنے اس پرانے خادم کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ یک دم اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور بادشاہ نوکر کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔

سبق:‌ جب کسی کے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارا ہو تو اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور خطاؤں سے صرفِ نظر بھی کرنا چاہیے۔ یہ اعلیٰ ظرفی بھی ہے اور تعلق کا تقاضا بھی۔ اگرغلطی سنگین ہو یا کسی سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہو تب بھی ممکن ہو تو ایسا راستہ اختیار کریں جس کی اپنے تو ایک طرف دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو جائے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں